"چلیں چچی جان ہم چلتے ہیں۔۔" سعدی ارمان کو لے کر باہر نکل گیا۔

_______***

لیزا اور پریشہ دونوں یونی ہال میں چہل قدمی کر رہی تھیں۔۔
لیزا نے اس سے اسلام کے متعلق بہت سوال پوچھے تھے اور پریشہ نے ہر بات اسے کلئیر کرکے بتائی تھی۔۔
عورت کے پردے سے لے کر نماز میں اللہ کے آگے سجدہ کرکے سکون حاصل کرنے تک پریشہ نے اسے بتایا تھا۔
"لیزا تم اسلام کیوں قبول نہیں کر لیتیں!۔۔۔۔
میں اسلام سے تمھاری دلچسپی بڑھنے کی وجہ سے کہہ رہی ہوں۔۔" پریشہ نے تھوڑی دیر خاموشی کے بعد کہا۔۔پریشہ کا کام اسے سمجھانا تھا جو اس نے بہت اچھے سے کرلیا تھا.
"اسلام!" لیزا نے بس اتنا ہی کہا اور سوچ میں پڑ گئی آخر آج پریشہ اسے یہاں تک لے ہی آئی تھی۔۔اندازہ پریشہ کو پہلی ملاقات میں ہوگیا تھا اسکی تمام حرکتوں اور باتوں سے کہ وہ کتنا اسلام کے بارے میں دلچسپی لیتی ہے۔
"لیزا تم وقت لے لو."پریشہ اسے خاموش پاکر بولی.

"نہیں پریشہ ! میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں."
"تم میری مدد کرو پلیز."لیزا اپنی آنکھوں میں نئی امید کا سمندر لیے بولی.
"سچی!! میں ہوں تمھاری مدد کے لیے بس تم میرے ساتھ چلو..لیزا تم نے بہت اچھا فیصلہ کرا ہے."
پریشہ نے خوشی سے کہا.
آج اسکی زندگی کا ایک مقصد پورا ہوگیا تھا اسکی خواہش تھی کہ کوئی بھٹکا ہوا ہو اور وہ اسے راہ راست پہ لے آئے۔۔
پریشہ لائیبریری سے کچھ کتابیں ساتھ لے آئی اور لیزا کو ایک مدرسہ لے گئی جہاں وہ بھی جایا کرتی تھی۔۔
پریشہ کا آج پیپر تھا اور اب وہ تھوڑا ریلکس فیل کر رہی تھی مگر دو پیپرز ابھی بھی باقی تھے۔۔
دو مہینے آرام سے گزر گئے تھے سب شادیوں کی تیاریوں میں لگے تھے پریشہ اپنے ایگزامز کی تیاری کرتی رہی تھی.اور ولاگنگ کا کام جاری رکھا تھا.. اس نے جو چاہا تھا اسے حاصل ہوگیا تھا.

مدرسے کے بعد وہ حارث کے ہاں جاتی سب ایک ہفتے سے وہیں ٹہرے ہوۓ تھے سواۓ پریشہ کے۔۔کل حارث کی مہندی تھی اور پریشہ نے کہہ دیا تھا کہ اب لازمی وہاں رکے گی۔۔انگلش کا اگلا پیپر تھا جو پریشہ کا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اسکی بہت اچھی تیاری کری ہوئی تھی۔۔
ارمان اور سعدی نے ایک رحمان صاحب دارجی کے نام سے الگ آفندیز کی برانچ کھولی تھی..
پوری دو مہینوں کی محنت کے بعد انکا باہر کی کسی انٹرنیشنل کمپنی کے ساتھ کانٹریکٹ ہوا تھا جو بہت بڑی کامیابی تھی۔۔

_________****

پریشہ لیزا کے ساتھ استانی حور صاحبہ کے سامنے بیٹھی تھی۔۔
جیسا انکا نام تھا ویسے ہی انکی شخصیت تھی.انکے ایک ایک انداز سے حیا اور ادب جھلک رہا تھا.
"بیٹی مجھے آپ سے یہی امید تھی.."حور صاحبہ نے پریشہ کے سر پہ ہاتھ رکھ کہ کہا۔
"آپی یہ میرا فرض تھا اور میری زندگی ایک ایک خوبصورت مقصد ، اور دیکھیں اللہ نے میری کیسے مدد کری ورنہ سوچیں ایسی خواہش لاکھوں لوگوں کی ہوتی ہے مگر ہر کوئی اس کو حقیقت نہیں کر پاتا."
"پریشہ بچے میں بہت خوش ہوں مجھے رحمان صاحب کی تربیت اور تمھارے والدین کی تربیت پر رشک ہے.."
لیزا ان دونوں کی گفتگو کے درمیان بلکل خاموش تھی اسے خود پر رشک آرہا تھا کہ اسے کتنی اچھی دوست ملی ہے.
"اصل دوست وہی ہوتا ہے جو اپنے دوست کو کھائی میں نا چھوڑے بلکہ اسے باہر نکالے."
"اور آج کے زمانے میں مخلص دوست بہت کم ملتے ہیں."
"دوست وہی جو آپکو اسلام کے قریب کردے"

جسے رب رکھے💫Where stories live. Discover now