★★★★★★★★
اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول دی تھیں۔ منظر دھندلا سا تھا.ہاتھ اٹھا کر اس نے پیشانی کو چھوا۔۔پھر آنکھوں کو مسلا۔
چند لمحوں کے بعد ہسپتال کا کمرہ مدھم نیلگوں روشنی میں نمایاں ہوا۔قطرہ قطرہ رگوں میں سرایت کرتی ڈریپ۔۔۔ کئی خاموشیاں اور سناٹے لیے بند کھڑکیوں سے جھانکتی اداس شام۔۔۔۔
پلکیں جھپکا کر اس نے گہرا سانس لیا۔ اسکا حلق خشک ہو رہا تھا۔آنکھوں میں جلن تھی۔ سر بھاری تھا۔سامنے ہی کرسی پر صابرہ بوا تسبیح ہاتھوں میں لیے بیٹھی تھیں۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس آ گئیں۔کس قدر کوشش سے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
انہوں نے بےساختہ اسکا ہاتھ تھاما، پیشانی چومی۔ اسے بھینچ کر خود سے لگایا۔۔ وہ خالی الزہنی کی کیفیت میں ان کے سینے سے لگی سوچے جا رہی تھی تو بس یہی کہ وہ یہاں کیونکر اور کیسے موجود تھی؟
دھند مٹ رہی تھی۔اندھیرے چھٹ رہے تھے۔منظر واضح ہو رہا تھا۔
دماغ کی تاریک سرنگوں میں ایک روشنی سی پھیلی۔ مین روڈ پر دوڑتی گاڑیوں کا شور اس کے حواسوں پر چھانے لگا۔موسلادھار بارش کے تصور سے وجود ایک بار پھر لرزیدہ ہوا۔
اس نے سٹور پر کسی لڑکے سے موبائل لے کر سلیم کو فون کیا تھا۔وہ اسلام آباد میں پوسٹڈ تھا۔اسکی پکار پر بھاگا چلا آیاتھا۔وہ پورا دن اس کے گھر ۔۔اسکی بیوی کے پاس رہی تھی۔طبیعت پہلے سے خراب تھی اور کچھ بارش کا بھی اثر تھا کہ اسے بخار نے آ لیا تھا۔مگر وہ ان کے بےحد اصرار پر بھی نہ ہاسپٹل جانے کو تیار ہوئی تھی۔۔اور نہ ہی کچھ کھانے کو رضا مند تھی۔ صورت حال کے پیش نظر سلیم نے صابرہ بوا سے فون پر رابطہ کر کے اسکی ٹکٹ شام تک کروا دی تھی۔
اسے بس کا وہ مشکل ترین سفر یاد آیا۔تاریکیوں میں گھرا وہ شاق دن یاد آیا۔
انگاروں پر لوٹتا وجود، جلتی ہوئی ویران آنکھیں۔۔۔کپکپاتی انگلیاں۔۔۔روتا تڑپتا دل۔۔۔انگ انگ میں اترتا اضطراب۔۔۔۔
صابرہ بوا کے گھر پہنچنے تک ، ان کے سامنے آنے تک اور پھر کسی بےجان وجود کی طرح ان کی بانہوں میں سمانے تک اسے سب یاد تھا۔
اس کے بعد جب سر چکرایا تھا اور اندھیرے چھائے تھے تو چیخ و پکار سنتے اسے گمان ہوا تو بس اس امر کا کہ اب وہ مرنے والی ہے۔ مگر وہ مری نہیں تھی۔اسکی سانسیں ہنوز چل رہی تھیں۔دل ہنوز دھڑک رہا تھا۔ کیفیت یوں ہو رہی تھی جیسے وہ لمبی بیماری سے اٹھی ہو۔
کیا انجام اب کسی نئے آغاز سے جڑ چکا؟؟!
آنکھوں میں کرب لیے اس نے نظر اٹھا کر صابرہ بوا کو دیکھا۔کچھ کہنے کے لیے لبوں کو جنبش دی۔۔آواز حلق سے نہ نکلی۔۔ آنکھوں کے کنارے نم ہو گئے۔
صابرہ بوا نے ایک دم سے آبدیدہ ہو کر اسکا زرد چہرہ ہتھیلیوں میں لے لیا۔ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔اب وہ کچھ کہہ رہی تھیں۔وہ سرخ پڑتی خالی ویران آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
سماعت میں پڑتے الفاظ اسے مجسم کرنے لگے،دھڑکن تھمنے لگی۔ تنفس بھاری ہوا۔۔۔آنکھیں پتھرانے لگیں۔
ہاتھ اٹھا کر خداکا شکر ادا کر کے،اسے کندھوں سے تھام کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہ اب اسے "رپورٹ" دیکھا رہی تھی۔
دماغ پہلے سے ماؤف تھا۔۔حواس شل رہے۔۔لفظ عدم اور آواز صامت رہی۔۔۔
محرومیوں کے بوجھ تلے فنا ہوتا وجود یقین اور بے یقینی کے درمیان معلق ہو گیا۔۔
اسکا سر بےساختہ نفی میں ہلا۔۔۔اس نے اپنا آپ چھڑا لیا۔وہ گہرے صدمے سے گزر رہی تھی۔ صابرہ بوا کو ایسا مذاق نہیں کرنا چاہیے۔ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
مگر وہ مذاق تھا،نہ مزاح ۔ایک خبر تھی۔بشارت تھی۔انہوں نے رپورٹ سامنے رکھی۔کہ وہ خود دیکھے۔خود سمجھے۔یہ سراب نہیں تھا۔خواب بھی نہیں تھا۔
اور اس نے دیکھا ۔۔اپنی ان ویران آنکھوں سے دیکھا۔پلکیں جھپکا کر اور دھڑکنوں کو تھام کر دیکھا۔۔
پانچ سالوں تک جو رپورٹ "منفی" تھی وہ "مثبت" ہو کر سامنے تھی۔پانچ سالوں تک جو محرومی "ساتھی" تھی،وہ "انعام" ہو کر واضح تھی۔
وہ ساکت بیٹھی تھی۔منجمد۔۔بےحس!!بےجان۔۔۔پتھرائی ہوئی نگاہوں سے زندگی کو کھوجتے۔۔۔سانسوں کو جوڑتے،ایک بےجان کاغذ کو کپکپاتی انگلیوں میں دباتے۔۔۔۔۔
"تم بانجھ ہو جنت! اور بانجھ عورت ایک مرد پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتی!"
گلدان ٹوٹ گیا تھا۔کانچ کے ٹکڑے بکھر گئے تھے۔وہ ایک مکمل تصویر پرزوں میں بٹ گئی تھی۔
"جنت نہیں۔۔جنت میرا بچہ!!"
"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔ابھی اور اسی وقت دفعہ ہو جاؤ یہاں سے!"
وقت پلٹنے لگا۔ صفحے الٹنے لگا۔ حکایتیں صبیح ہو گئیں۔دن تاریک۔۔۔اور تاریک راتیں صفاء ہو گئیں۔
"یہ ایک کاغزی شادی ہے جنت کمال!! یہ صرف کاغز تک محدود رہے گی!"
"اب تم حق مہر کی رقم اپنے پاس رکھ سکو گی!"
اس نے پلکیں جھپکائیں۔سرخ ڈوریوں میں کرب ہلکورے لے کر اٹھا،آنسو رواں ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔
"کچھ محرومیاں عطاء کا ایک روپ ہوتی ہیں جنت! اللہ کی "کن" کی منتظر۔۔۔ اپنا روپ بدلنے کو ہر لمحہ مستعد!!۔۔۔۔۔۔۔اصل امتحان تو اس مدت کا ہے۔۔جو اس محرومی میں گزاری جاتی ہے۔اس دوران ہمارے صبر کو جانچا جاتا ہے۔۔ہمارے شکر کو پرکھا جاتا ہے۔۔پھر ایمان کا درجہ متعین ہوتا ہے!"
اللہ!! پورے وجود پر ایک لرزہ سا طاری ہوا۔آنکھوں سے وحشت اتر گئی۔سانسوں سے وزن ہٹ گیا۔"جنہ!!!! بچے!!!" صابرہ نے اسے کندھوں سے تھاما ہوا تھا۔وہ اسے پکار رہی تھیں۔مگر وہ ان کی سن نہیں رہی تھی۔
"مانگتی رہو اور دیکھتی جاو اللہ کی مرضی سے تمھاری جھولی میں کیا گرتا ہے، جو گرے اسے بخوشی اپنا لو، خواہ وہ نقطے جتنی خوشی یا ذرے جتنی برکت ہی کیوں نہ ہو!" پردوں کی درز سے جھانکتی سورج کی تیز روشنی۔۔۔مسز شیرازی کا مسکراتا چہرہ۔۔۔ بےشمار کلر ٹیوبز۔۔کنواس۔۔۔۔ اور پینٹنگ۔۔۔ہنزہ کی پینٹنگ۔۔۔۔عسریسرا کی پینٹنگ۔۔۔۔۔
"ہر عسر کے ساتھ یسرا ہے!اور یہ یسرا کیا ہےاگلی بار میں اسکا جواب دوں گی آپ کو۔۔"
یکایک منظر بدلا تھا۔
" تمھاری فارس سے شادی میری وجہ سے نہیں ہوئی ہے، نہ ہی تمهاری خالہ کی وجہ سے.....یہ تمہارا نصیب ہے جو تمہیں یہاں لایا ہے!"
نصیب!! نصیب!! ہر طرف ایک ہی گونج تھی۔۔ایک ہی صدا۔۔۔۔اس ایک لفظ نے اسے کتنا ڈرایا تھا۔۔۔کتنا رلایا تھا۔۔ آن کی آن میں اب۔۔ کتنا معتبر۔۔کتنا منفرد، کتنا بدیع(انوکھا) ہو گیا تھا۔
"جس وقت منفی سوچ جڑ پکڑے۔ اور مایوسی انتہا کی گہری ہو جائے تو سمجھ جاو۔۔ یہ شیطان کا آخری وار ہے ۔۔۔ٹھیک اس وقت پڑ رہا ہے جب وہ تمھارے "انعام" سے واقف ہو چکا ہے۔"
اور اسکا انعام کیا ہو سکتا تھا؟؟ اس نے تب بھی سوچا تھا۔ وہ اب بھی سوچ رہی تھی۔اسوقت ایک لمحے کے لیے یہ انعام اسکے زہن میں نہیں آیا تھا۔اب بھی نہیں آ رہا تھا۔بلکل نہیں آ رہا تھا۔۔
"جنہ!!بچے!!"
اس نے سر اٹھا کر روتی سسکتی نگاہوں سے صابرہ بوا کو دیکھا۔یقین اور بے یقینی کے عالم میں۔۔اندر ہی اندر ٹوٹتے بکھرتے ہوئے۔۔۔۔خود اذیتی کی دلدل میں اترتے ہوئے۔۔۔بار بار تاریک رات کا منظر آنکھوں آ رہا تھا۔ اپنا فیصلہ یاد آ رہا تھا۔موت اور اس کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ تھا۔چند لمحوں کی مسافت تھی۔۔
وہ خودکشی کرنے والی تھی۔ اپنی جان لینے والی تھی۔۔اسے وہ آخری لمحہ یاد آیا۔۔وہ آخری پل۔۔جب فٹ پاتھ سے آگے سڑک پر قدم جماتے وہ ٹھہر گئی تھی۔۔۔پتہ نہیں کیوں۔۔۔وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی تو نہیں ہل سکی تھی۔۔۔اسے نانا یاد آئے تھے۔۔ان سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا تھا۔۔
اذیت بھری زندگی تو گزار رہی تھی۔۔۔آخرت برباد کرنے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں۔۔۔
اور وہ لمحہ ٹھہر گیا۔۔۔وہ لمحہ رہ گیا۔۔۔
پوری دنیا میں خود کو تنہا تصور کرنے والی جنت کمال ۔۔۔اس لمحے "تنہا" نہیں تھی۔۔۔
اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔صابرا بوہ نے بازوں میں بھر لیا۔ان کے سینے میں سر دیئے وہ چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ساری محرومیاں،ساری اذیتیں،سارے کے سارے غم یکایک عدم ہوئے۔۔۔۔ وہ ایک عطاء۔۔۔ہر مصیبت پر بھاری ہو گئی۔۔وہ ایک انعام ہر درد کو فنا کر گیا۔
"دعائیں رد نہیں ہوتیں جنت!! محفوظ کر لی جاتی ہیں، جو آپ مانگ رہے ہوں وہ نہ ملے تب بھی۔۔۔ آپ کے ہاتھ خالی نہیں لوٹائے جاتے! خدا ہمیشہ بڑھ کر عطاء کرتا ہے،وہ آپ کو حیران کر دیتا ہے! "
اور اسکے خدا نے اسے۔۔۔حیران کر دیا تھا۔
★★★★★★★★
"جنت کے شوہر نے بتایا نہیں اس نے گھر کیوں چھوڑا ؟؟"
سیڑھیاں اتر کر نیچے آتے ہوئے آواز سماعت سے ٹکرائی تو عمار اپنی جگہ تھم کر رہ گیا۔بے ساختہ گردن موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ پھر آہستگی سے قدم اٹھاتا آگے بڑھا۔ ڈرائنگ روم کی نشستوں پر خاندان کے بڑے سب براجمان تھے۔ سائرہ سامنے ہی سر جھکائے بیٹھی تھیں۔ جنت کے چچا ،چچی،پھپھی، چھوٹی چچی وغیرہ سب موجود تھے۔
"کسی کے ساتھ کوئی چکر تو نہیں چل رہا تھا اسکا!!؟" کریمہ آنٹی اس کے باپ سے کہہ رہی تھیں۔وہ اپنی جگہ ساکت سا انہیں دیکھ کر رہ گیا۔ وہ جنت کی سگی پھپھو تھیں۔
مجلس میں جنت کا کردار ڈسکس ہو رہا تھا۔خاندان بھر میں طرح طرح کی باتیں پھیل گئی تھیں۔اور طرح طرح کی پھیلی ہوئی ان باتوں کی تصدیق کے لیے ہی وہ لوگ یہاں جمع ہوئے تھے۔کسی کو یہ خبر ملی تھی کہ وہ گھر کے کسی ملازم کے ساتھ بھاگی تھی اور کسی نے یہ سنا تھا کہ فارس وجدان کے کسی دوست کے ساتھ اسکا چکر چل رہا تھا تبھی اسے گھر سے نکال دیا گیا۔۔۔
وہ اپنی جگہ ساکت سا،پتھرایا ہوا کھڑا تھا۔ کوئی اتنا بےحس،اتنا بےرحم کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟ گردن موڑ کر اس نے حفصہ آپی کو دیکھا۔ وہ سر جھکائے شرمندہ سی بلکل خاموش بیٹھی تھیں۔ نہ جواب دینے کی ہمت تھی۔۔نہ صفائی پیش کرنے کی سکت۔۔۔جنت کمال ایک بار پھر ان کی ذاتی زندگیوں میں بھونچال لے آئی تھی۔ ایک بار پھر ان کی فیملی زبان زد عام آ گئی تھی۔۔۔ کمال کی بیٹی۔۔۔کمال کی بیٹی۔۔۔ اب سب کہہ رہے تھے۔۔۔اور وہ خاموش تھیں۔۔ہمیشہ کی طرح۔۔۔ آج بھی ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
"حیرت ہے کسی نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ جنت نے اپنا گھر فائزہ آنٹی کی وجہ سے چھوڑا ہے جنہوں نے اس کے گھر جا کر اچھا خاصا تماشا کریئیٹ کیا!" وہ اندر داخل ہوتے ہی بول پڑا تھا۔
"ہاں تو حرکتیں ہی اسکی ایسی تھیں،منہ دکھانے کے قابل جو نہیں رہی ہو گی۔۔۔" کریمہ پھپھو نے فورا سے پینترا بدلا۔
"حرکتیں؟؟!کیسی تھیں اسکی حرکتیں؟؟!" وہ آنکھوں میں غصہ لیے ان کی طرف دیکھنے لگا۔
"ایسی فتنہ پرور لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ پہلے اپنے بھائی کی جان لی، پھر ہمارے بھائی کا سر کھایا۔ برھان کی زندگی جہنم بنائے رکھی۔ذرا پوچھو تو عالیہ سے۔۔کیسے دن بھر فون سے چپکی رہتی تھی۔ عشق معشوقے سے فرصت ملتی تو گھر سنبھالتی۔ ایک تو بانجھ۔۔۔"انہوں نے حقارت سے سر اٹھایا۔" اور اوپر سے ڈھٹائی الگ۔۔ ماہین کا بچہ مارنے کی کوشش تک کر ڈالی۔۔نفیسہ بہن تو اس کی موت ماری گئیں۔۔۔ارے میں نے تو سجاد سے کہہ دیا تھا غیروں کے لائق نہیں ہے یہ۔۔اپنے زمان سے نکاح کر دو ،وہی اسے سیدھا رکھے گا مگر نہیں۔۔۔۔۔" وہ غصے اور حقارت سے بہت سی باتیں۔۔بہت سے قصے۔۔بہت سے واقعات سناتی جا رہی تھیں۔ اور کوئی بھی انہیں ٹوک نہیں رہا تھا۔
یہ سب ایسے ہی تھا۔۔ یہ سب شروع سے ایسے ہی چلتا آ رہا تھا۔۔
"بس کر دیں آنٹی فار گاڈ سیک!" وہ سارا لحاظ اور مروت بالائے طاق رکھتے ہوئے چیخ پڑا۔
" ابراہیم صاحب! آپ کا بیٹا تو پورا باؤلا ہو گیا ہے، نہ چھوٹے بڑے کی تمیز ہے نہ لحاظ کر رہا ہے کسی کا۔۔۔۔"
ابراہیم صاحب نے اسے تنبیہہ کرتے ہوئے بڑوں کی محفل سے چلے جانے کا حکم دیا تھا مگر آج اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔۔نہ سائرہ۔۔نہ ابراہیم۔۔اور نہ خاندان کا کوئی فرد۔۔۔۔
"اگر پاگل کہہ ہی دیا ہے آپ نے مجھے۔۔تو پھر میرے پورے پاگل پن کا مظاہرہ بھی کر لیں۔۔آپ کو کیا لگتا ہے ہم کل کے بچے۔۔بےوقوف اور ناسمجھ پیں؟؟ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا؟؟ کچھ سمجھ نہیں آتا؟؟۔۔۔ نفیسہ آنٹی جنت کی وجہ سے نہیں۔۔۔ آپ سب کی وجہ سے مری ہیں!" اس نے انگلی اٹھا کر سب کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ "انہیں بیٹیوں کے طعنہ دینے والے آپ لوگ تھے۔ ان پر طنز و تشنیع کرنے والے آپ لوگ تھے۔ ان کی محرومی کا آپ لوگوں نے سرے عام مذاق اڑایا۔۔۔انہیں زہنی مریض بنا دیا۔۔۔ ذرا محاسبہ کرتے ہیں آنٹی۔۔۔ مجھے بتائیے صبا آپی نے حال ہی میں چوتھی بیٹی کو جنم دیا ہے۔ دن رات سسرالیوں کے طعنے سن رہی ہیں نا وہ۔۔۔وہی لفظ جو کبھی آپ نے نفیسہ آنٹی کو سنائے تھے؟؟؟"کریمہ پھپھو کے چہرے پر تاریک سایا لہرا گیا۔" آپ کی اپنی اولاد آپ کے غرور اور تکبر کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور آپ میں اب بھی جرات باقی ہے کہ۔۔۔آپ اسی عورت کی بیٹی کو ایک بار پھر نشانہ بنا رہی ہیں!؟؟"
ڈرائنگ روم میں خاموشی تھی۔اب تو جیسے کوئی سانس بھی نہیں لے رہا تھا۔
"روحینہ چچی کو ناز تھا وہ چار بیٹوں کی ماں ہیں۔۔ چار شیر جوان ان کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔۔ان کی نسلیں آگے چلیں گی۔نفیسہ آنٹی ان کے سامنے 7 بیٹیوں کی ماں۔۔کوئی حقیر سی مخلوق تھیں۔۔ اور آج۔۔۔ ان کے وہ تمام کے تمام بیٹے۔۔صرف "بیٹیوں" کے باپ ہیں۔۔" اس نے رخ بدل کر انہیں دیکھا۔۔"اآپ اس بات کو زیر بحث کیوں نہیں لاتیں؟سات بیٹیوں کی ماں ہونا نفیسہ آنٹی کا قصور تھا۔۔۔۔اب اتنی ساری پوتیوں کی دادی ہونا کس کا قصور ہے؟؟"
اور روحینہ چچی کو یوں لگا تھا جیسے بھرے بازار کسی نے طمانچہ دے مارا ہو۔سائرہ نے پہلی بار اپنے بیٹے کو نہیں ٹوکا تھا۔ حفصہ آنکھوں میں حیرت صدمہ لیے اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔
"میں حیران ہوں آپ لوگوں میں ابھی بھی ہمت ہے اس طرح اس عورت کی اولاد پر زبان درازی کرنے کی جس کی زندگی آپ لوگوں نے خود جہنم بنائی ۔اور اتنی بےحسی کہ ذرا فرق نہیں پڑا ۔ اللہ تو اپنا حساب لے رہا ہے۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ سب اپنے حساب سے۔۔اس طرح بےخبر رہیں؟؟؟! آپ لوگوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں تو اسکا مطلب ہے ہمیں بھی کچھ نظر نہیں آتا ہو گا؟؟"
ڈرائنگ روم میں اتنا سناٹا چھا گیا تھا کہ اگر سوئی بھی گرائی جاتی تو اسکی بھی آواز آتی۔ کسی بھی بڑے فرد کی سکت نہیں رہی تھی کچھ بھی بولنے کی۔۔۔ وہ سب جنت کے معاملے میں اکھٹے ہوئے تھے۔۔اور عمار نے تو جیسے ان سب کے اجتماع کو نشانہ بنا کر سب کی حقیقتیں ان کے مونہوں پر دے ماری تھیں۔۔۔
وہ شدید غصے کے عالم میں بپھرا ہوا سا کھڑا تھا۔
"جنت کبھی اپنی اولاد کے لیے درباروں مزاروں پر نہیں گئی۔۔اور آپ لوگ کہتے ہیں ماہین کا بچہ ضائع کرنے کے لیے اس نے تعویذ گنڈے کروائے ہیں؟؟؟"وہ سراپا سوال بنا ان سب کو دیکھے جا رہا تھا۔"اب برھان کے گھر جو بھی نقصان ہو گا تو اسکا الزام ساری عمر جنت کے سر ڈالتے رہیں گے آپ لوگ؟جب اسے اپنی زندگی سے ،خاندان سے بےدخل کر چکے ہیں تو پھر اسے ڈسکس کرنے کا مقصد؟؟؟؟۔۔فائزہ چچی کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا اس طرح اس کے گھر جا کر۔۔۔اسکے سسرالیوں کے سامنے بےعزت کرنے کا۔۔اور خدا کے لیے۔۔۔" اس نے ہاتھ جوڑے۔۔۔ "اب بخش دیں جنت کو!!!!"
بات ختم نہیں ہوئی تھی۔مگر اس نے ختم کر دی۔ عکس ادھورے تھے۔ اور اس نے ادھورے رہنے دیئے۔ آئینہ مکمل اور سلامت تھا۔ حقیقتیں بھی اتنی ہی تلخ اور نمایاں۔۔۔
جو خاموشی اسکی موجودگی میں چھائی ہوئی تھی،وہ اسکی غیر موجودگی میں بھی ٹھہری رہی۔کسی میں ہمت نہ رہی تھی مزید کوئی بات یا بحث کر سکے۔ کوئی دلیل دے سکے۔ یا کچھ تردید کر سکے۔
وہ مجلس، وہ اجتماع احتساب ہو گیا تھا۔ آئینے میں ہر کسی کا کریہہ چہرہ واضح تھا۔اور اس چہرے سے تقریباً سب نے نظریں چرائی تھیں۔کہ حقیقت سامنا تو پھر وہ لوگ کرتے ہیں جو خود کو بدلنا چاہتے ہوں۔
ایک ایک کر کے سب اٹھتے چلے گئے۔صرف حفصہ کمال ہی تھی جو اپنی جگہ سن بیٹھی رہ گئی تھی۔
★★★★★★★★
وہ تین دن ہسپتال میں رہی۔ طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو اسے ڈسچارج کر دیا گیا۔صابرہ بوا اسے اپنے گھر لے آئیں۔۔انکا الگ پورشن تھا۔وہ بیرونی دروازے سے ان کے ہمراہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئی تھی۔ بیماری کا اثر ہنوز ٹھہرا تھا۔کمزوری اتنی ہو گئی تھی کہ ذرا سی سیڑھیاں چڑھنے پر اسکا سانس پھول گیا تھا۔
اوپر ایک وسیع وعریض کمرہ تھا۔بوا اسے کمرے میں لے آئیں۔
ہوادار لمبی کھڑکیاں جو پیچھے سرسبز کھیتوں کی طرف کھلتی تھیں۔ اور سامنے والی کھڑکیوں سے نیچے صحن کا پورا منظر آتا تھا۔۔ جامن کا پھیلا ہوا درخت۔۔۔سائے میں بچھی ہوئی چارپائی۔۔سرخ اینٹوں کا پکا صحن۔۔۔ سفید دیواروں پر سرسبز بیلی چڑھی ہوئی تھیں۔ آہنی گیٹ بند تھا۔ نیچے تین کمرے تھے۔کچن تھا۔ مردوں کے لیے الگ سے بیٹھک سامنے ہی بنی ہوئی تھی جس کا ایک دروازہ باہر سے کھلتا تھا۔
صابرہ بوا کی بھانجی نیچے مقیم تھی۔ اوپر کا کمرہ ،واش روم اور چھوٹا سا کچن ان کے حوالے تھا۔
وہ کھڑکی میں کھڑی نیچے دیکھنے لگی۔
بچوں کے شور کے ساتھ صندل آپا کی آواز واضح تھی۔ ان کا نو سالہ بیٹھا پائپ ہاتھ میں پکڑے درختوں کو پانی دیتا اسکا رخ اپنی چھوٹی بہن کی طرف موڑ چکا تھا۔ اور اس شدید گرمی میں ٹھنڈک کے احساس سے خوش آنے کے برعکس وہ بھاں بھاں کر کے رونے لگی تھی۔
"علی!!" صندل آپا نے کچن سے ہی اسے سخت کڑی نظروں سے دیکھا تھا۔ اور اس نے وہیں سے پائپ سر پر کیے خود کو مکمل بھگو لیا۔۔
"ایک تو گرمی میں کام کرواتی ہیں۔ اوپر سے ڈانٹتی بھی ہیں."
" یہ درختوں کا ذرا سا پانی دینے سے تمھاری کمر ٹوٹتی ہے؟!"
" ذرا سا پانی دیتا ہوں؟؟" آنکھیں پھیلا کر وہ اپنی ماں کی طرف مڑا۔
" ابھی کہیں گی پورے صحن میں پانی کا ترکار کرو۔ پھر یہاں سے ساری چارپائیاں ہٹوا کر وہاں رکھوائیں گی۔ اس کے بعد باہر بھیجیں گی۔ علی یہ لے آو۔۔ علی وہ لے آو۔۔۔ علی یہ کام کرو۔۔علی وہ کام کرو۔۔۔"شلوار اور بنیان میں وہ دھوپ میں کملایا ہوا سا کھڑا تھا۔جنت کے لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ ابھری۔صندل آپا اسے ہسپتال میں ملنے آئی تھیں تو ان کے ساتھ وہ بھی تھا۔
"اللہ معاف کرے۔۔کب تم سے چارپائیاں اٹھواتی ہوں میں؟؟!"
"اس دن نہیں اٹھائی تھیں جب یاور چاچو آئے تھے؟؟یہاں رکھو۔۔وہاں رکھو۔۔۔ اب وہاں رکھو.."
"ایک ہی تو چارپائی تھی۔۔وہ بھی فاطمہ کی۔۔حد ہے۔۔طعنے سن لو موصوف سے۔۔" وہ بڑبڑاتی ہوئی چلیں گئیں۔ موٹر بند کر کے کچن کا رخ کیا تو وہ مکمل بھیگا ہوا کمر پر ہاتھ ٹکائے کھڑا تھا۔دھوپ میں آنکھیں چندھیا کر یہاں وہاں دیکھتا۔۔ چھوٹی بہن اپنا منہ خشک کرتی ،جامن کے ساتھ بندھے جھولے پر ٹک گئی تھی۔
اب وہ بہن کے سر پر کھڑا تھا۔ اور اسے جھولا چھوڑنے کا کہہ رہاتھا۔بہن نے رسیوں پر گرفت جما کر نفی میں زور و شور سے سر ہلایا اور ایک بار پھر چلائی۔۔
"اماااااں!!"
"علی مت تنگ کرو اسے۔۔۔" صندل آپا جھنجھلائیں۔
"اے ہے لڑکے۔۔ایک گھڑی سکون سے بیٹھ جا کہیں!"صابرہ بوا کمرے سے باہر نکل کر سیڑھیوں کی طرف جاتے ہوئے بولی تھیں۔وہ پھر سے بگڑ گیا۔دھپ دھپ پاؤں اٹھاتا آہنی گیٹ دھکیل کر باہر نکل گیا۔
پھر اسے آنگن میں دو سالہ بچی نظر آئی۔ فیڈر ہاتھ میں لیے وہ جھولا جھولتی بہن کے پاس چلی گئی تھی۔کچھ دیر بعدکسی کونے سے تیسری بچی نمودار ہوئی ۔ تقریبا چھے سال عمر ہو گی۔ایک ہاتھ میں کاپی اور دوسرے ہاتھ میں پنسل لیے۔۔۔ سائے میں رکھی چارپائی پر چڑھ کر اپنا ہوم ورک کرنے لگی۔۔
"یہ میں صندل کا سوٹ لے آئی ہوں۔یہی پہن لو۔کل بازار جاؤں گی تو گرمیوں کے سوٹ لے آؤں گی۔" بوا اندر داخل ہوتے ہی بولی تھیں۔ وہ مڑ کر انہیں دیکھنے لگی۔
الماری کھول کر انہوں نے ایک سوٹ اندر لٹکا دیا ۔اور دوسرا بیڈ پر رکھ دیا تھا۔
"نہا کر کپڑے بدل لو۔میں تب تک کھانے کا انتظام دیکھ لوں۔ صندل تو کہہ رہی ہے آلو گوشت پکائے گی۔میرا ارادہ ہے ساتھ میں بریانی بنا لیتے ہیں۔ تمہیں ویسے بھی بریانی بہت پسند ہے ۔۔ " تیزی سے بیڈ شیٹ بدلتے ہوئے انہوں نے کہا اور جنت گم صم انہیں دیکھتی رہی۔
"ڈاکٹر نے کہا ہے خوراک کا بہت خیال رکھنا ہے۔بلکل کمی نہیں ہونی چاہیے۔۔ اور تم تو ہو ہی سدا کی لاپرواہ۔۔ سب کچھ مجھے ہی دیکھنا ہو گا!" ان کے لہجے اور انداز سے پیار،خفگی،تنبیہہ خوشی نمایاں تھیں۔ بات کرتے ہوئے وہ اشتیاق میں آ جاتیں۔ کچھ سوچ کر بےساختہ مسکرانے لگتیں۔ " ڈاکٹر صاب زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے!!"
"میرے لیے اتنا اھتمام نہ کریں ۔۔۔" اس کے لب ہلے۔
بوا نے اب کے اسے ذرا خفگی سے دیکھا تھا۔ "کیوں اھتمام نہ کریں؟؟ میں تو کوئی کمی نہیں ہونے دوں گی۔ سلیم کو بتایا تو کہہ رہا تھا پیسے بھیج دے گا۔مجھے خاص تاکید کی جنت کا خیال رکھیے گا۔۔ کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ پھل فروٹ ،سبزیاں۔۔۔اب کل عامر سے کہہ کر منگواوں گی سب۔۔"وہ جیسے خود سے سب طے کر رہی تھیں۔اسے اپنی زمہ داری سمجھ کر ۔۔اس کے لیے ہر فیصلہ خود کر رہی تھیں۔
"میں آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتی بوا!" جو بات دل میں تھی۔ وہ لبوں پر آ گئی۔
"چپ ۔۔ایک لفظ نہیں۔۔" انہوں نے جھڑک دیا ۔ "یہ تیرا گھر ہے، تو میری بیٹی ہے، میں وہ دن کیسے بھول سکتی ہوں جب ڈاکٹر صاب نے مجھے اور سلیم کو اپنے گھر پناہ دی تھی۔ جب ہم بےسہارا تھے تو وہ ہمارا سہارا بنے۔سلیم کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا،اسکے سارے اخراجات خود اٹھائے۔۔ اور اب جب ان کی بیٹی پر وقت آیا ہے تو میں منہ موڑ لوں گی؟؟" انہوں نے بہت محبت سے اسکے گال پر ہاتھ رکھا۔اسکے آنسو پونچھے۔وہ نچلا لب دانتوں تلے دبائے رونے پر قابو پاتی رہی۔
" چل جلدی سے فریش ہو جا پھر کھانا بھی کھانا ہے!"
وہ کپڑے اٹھا کر واش روم میں گھس گئی۔ شاور چلتا رہا تو آنسو بھی بہتے رہے۔اپنی حالت سوچ سوچ کر اذیت بڑھتی رہی۔
کپڑے بدل کر وہ تولیے سے بال خشک کرتی باہر آئی تو دروازے کی درز سے جھانکتا سر یکایک غائب ہوا۔
وہ علی تھا۔یقینا علی تھا۔ دروازہ کھول کر باہر آئی تو وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا نظر آیا۔
اس نے ظہر کی نماز پڑھی پھر کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر بال اچھے سے خشک کیے۔ کنگھی کی۔ کچھ ہی دیر بعد بوا ٹرے ہاتھوں میں لیے اندر آ گئی تھیں۔ساتھ ہی صندل آپا بھی تھیں۔ دو سالہ بیٹی کو اٹھائے وہ اسے بہت محبت سے ملیں۔
کھانا انہوں نے وہیں اکھٹے کھایا۔یہ الگ بات تھی کہ ان کی محبت اور اخلاق کے آگے وہ بار بار آنکھوں میں ابھرتی نمی کو پیچھے دھکیل رہی تھی۔
بمشکل آدھی روٹی اور بریانی کے کچھ چمچ لینے کے بعد اس نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے تھے۔ بوا اسے پیار بھری خفگی سے دیکھ کر رہ گئیں۔ "ختم کرو اسے شاباش!"
"بھوک نہیں ہے بوا!"
"اب تمہیں صرف اپنی بھوک کی فکر تھوڑی کرنی ہو گی۔" صندل آپا ہنسیں۔ وہ خفیف سا ہو کر سر جھکا گئی۔اسے بہت سارا رونا آ رہا تھا۔شاید بیماری کا اثر زائل نہیں ہوا تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ بہت حساس ہو رہی تھی۔
"بعد میں کھا لوں گی بوا۔ ابھی اتنا ہی ۔"
بوا نے مزید اصرار نہ کیا۔ میڈیسن لینے کے بعد وہ تیز پنکھا چلائے سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔بوا اسکی طرف سے تسلی کر کے نیچے چلی گئیں۔
صحن میں ایک بار پھر صندل آپا اور علی کی تکرار شروع ہو چکی تھی۔ مگر آواز مدھم تھی۔ اور کچھ دیر میں مدھم سے بلکل ختم ہو گئی تھی
★★★★★★★★