"پاکیزہ۔۔۔پاکیزہ بیٹے" خلیل الرحمٰن صاحب ہاتھوں میں سبزی کا شاپر لیے گھر میں داخل ہوتے ہی پاکیزہ کو آوازیں دینے لگے۔ پاکیزہ خلیل الرحمٰن صاحب اور نازیہ بیگم کی اکلوتی بیٹی تھی۔ پاکیزہ نہایت ملنسار اور بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبّت کرنے والی وُہ سادہ سی لڑکی تھی۔
"ابّو روح افزا پی لیں" گلابی سلوار سوٹ پہنے دوپٹے کو سلیقے سے سر پر اوڑھے پاکیزہ اُن کے ہاتھ سے شاپر لیتے ہوئے اُنہے جوس دینے لگی۔
"آپ نے نماز پڑھ لی، بیٹے؟" جوس کا گلاس واپس کرتے ہوۓ خلیل الرحمٰن صاحب نے پوچھا۔
"نہیں،ابّو بس پڑھنے ہی لگی تھی" پاکیزہ نے خاصا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ یہ خلیل الرحمٰن صاحب کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ اُس کی کوئی نماز قضاء نہیں ہوتی تھی۔
"کوئی بات نہیں بیٹے، آپ نماز پڑھ لو پھر ہم ساتھ میں کھانا کھاتے ہے" وُہ سر خم کرتے ہوئی نماز پڑھنے چلی گئی۔
"اسلام وعلیکم، چچا جان" خلیل الرحمٰن صاحب ابھی صوفے پر ہی بیٹھے تھے کہ وُہ آگیا۔
"وعلیکم اسلام، برخوردار آؤ، بہت دنوں بعد چکّر لگایا ہے چچا کے گھر کا" خلیل الرحمٰن صاحب نے خفگی سے کہا۔
"چچا جان ایسی بھی بات نہیں ہے آتا تو ہوں" اُس نے خلیل الرحمٰن صاحب کی خفگی مٹاتے ہوئے کہا۔
"مَیں چچی جان سے مِل کر آتا ہوں" خلیل الرحمٰن صاحب نے سر خم کیا تو وُہ کچن میں چلا گیا۔
چچی سے مِلنا تو ایک بہانہ تھا۔ وُہ تو اُس جانِ دُشمن سے مِلنے آیا تھا، اُس کی ایک جھلک دیکھنے آیا تھا، جِس نےخود کو اُس نے حواسوں پر کر لیا تھا۔ وُہ کیچن میں پہلے چچی جان سے مِل کر اُس کے کمرے کی طرف گیا۔ نوب گھوما کر اُس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی جو کھولتا چلاگیا۔ وُہ جانِ دُشمن اُسے جاۓ نماز پر سجدے میں نظر آئی، آج اُسے وُہ تیسری مرتبہ سجدے میں دیکھ رہا تھا۔ اُس کی دِل کی دھڑکن ویسے ہی بےقابو ہونے لگی جیسے پہلی مرتبہ اُسے سجدے میں دیکھ کر ہوئی تھی، اُسے سجدے میں ہی دیکھ کر وُہ اپنا دِل اُس پاکیزہ لڑکی پر ہار بیٹھا تھا۔ آج وُہ جِس مقصد کے تحت یہاں آیا تھا اُسے ڈر تھا کہ خاندانی رشتے بگڑ نہ جائے لیکِن وُہ اپنے اِس دِل کا کیا کرتا جو اُسے بار بار اُکساتا تھا۔
وُہ پچھلے ایک مہینے سے اُس کے حواسوں پر چھائی ہوئی تھی، مُشکِل سے اُس نے ایک مہینے میں ہمّت جمع کی اُسے اظہارِ محبّت کرنے میں، بنا انجام کی پرواہ کیے بغیر وُہ اُس کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔"ارے!!! نیاز تُم یہاں" پاکیزہ جائے نماز تہہ کر رہی تو وُہ اندر آیا۔
"مُجھے آپ سے کُچھ بات کرنی تھی" وُہ اُسے بازو سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھاتے ہوئے بولا۔
اُس کے ایسے کہنے پر پاکیزہ کا دِل زوروں سے دھڑکا، پاکیزہ بچی تو تھی نہیں کے اُس نے نظروں کامفہوم نہیں سمجھ پاتی اُس کے بار بار گھر آنے کا مقصد یا پھر اپنے تئیں اُس کے جذبات کو نہیں سمجھ پاتی،
YOU ARE READING
خراجِ محبّت ❤️ Complete✅
Romanceیہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جِس کو اپنی سے بڑی عُمر کی لڑکی سے محبّت ہو جاتی ہے۔ یہ کہانی ہے اُس لڑکی کی جو اُس لڑکے سے محبّت تو کرتی ہے لیکِن کبھی اپنی محبّت کو اُس لڑکے پر عیاں نہیں ہونے دیتی۔۔۔