ہادی کو اپنی پڑھائی پوری کرنے کے لئے انگلینڈ جانا پڑا تھا مگر درحقیقت وہ اسے پڑھائی کے لئے نہیں اپنے کام کے سلسلے ميں جانا تھا پڑھائی کا تو صرف بہانا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو اِسے ہُدیٰ میں واضح تبدیلیاں دیکھنے کو ملی تھیں۔ پہلے تو وہ اسے اپنا وہم سمجھا۔ مگر پھر اپنی جاسوسوں والی فطرت سے تنگ آکر اس نے ہر طرح سے ہدیٰ پہ اپنی نظر رکھنا شروع کر دی۔ بہت جلد ہی اس کے سامنے طلال نامی لڑکے کا سارا کیس کھُل چکا تھا۔ اس نے باتوں باتوں میں بہت کوشش کی کہ ہدیٰ اِسے کچھ بتا دے مگر ہدیٰ ہر بار بہت سہولت سے بات بدل دیتی۔ اس نے ہدیٰ کو مزید کریدنے اور کچھ کہنے کے بجائے اپنے ساتھ ساتھ رکھنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف شایان کی ہدیٰ میں بڑھتی دلچسپی وہ اچھے سے جانتا تھا۔ اُسے ہدیٰ کے لئے شایان خود بھی پسند تھا مگر ہدیٰ کی کسی اور میں دلچسپی جان کر وہ خاموش رہا۔ وہ ہدیٰ اور طلال کی فون پہ ہونے والی ایک ایک بات سے واقف تھا۔ وہ بہت خوبصورتی سے ہدیٰ کا موبائل ہیک کرا چکا تھا۔ شروع شروع میں ہدیٰ کو کسی اور میں دلچسپی لیتا دیکھ کر اس نے سوچا تھا وہ گھر والوں سے بات کر کے اس کا رشتہ یہیں کروا دے گا مگر طلال کی کرتوتیں دیکھ کر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ وہ زیادہ ہدیٰ کے ساتھ ہی رہتا اور اِسے ہر جگہ اپنے ساتھ لے کر پھرتا رہتا۔ جب کبھی ہدیٰ کو لگا تھا ہادی گھر نہیں ہے یا اپنے کام میں مصروف ہے تو درحقیقت اُس وقت وہ ہدیٰ کو خود سپیس دئیے ہوتا تھا۔
طلال اور ہدیٰ کے درمیان اپنی موجودگی سے پیدا ہونے والی خلیج وہ اچھے سے جانتا تھا۔ وہ چاہتا تو ہدیٰ کو طلال کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا مگر نجانے کیا وجہ تھی وہ اُس کا مان نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ اُس کو کہیں نا کہیں یقین تھا کہ ہدیٰ خود سے پلٹ جائے گی۔ اُسے اپنی بہن پہ بھروسہ تھا۔ اُسے اپنے ماں باپ کی تربیت پہ یقین تھا۔
اس وقت بھی ہادی اِن دونوں کے ہی میسیجز پڑھ رہا تھا۔ جس میں ہدیٰ طلال کو منانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ جواباً طلال کی جانب سے رکھی گئی شرط پہ اِس کا خون کھولا تھا مگر اپنی بہن کو راضی ہوتا دیکھ کر اِس کا خون زیادہ کھولا تھا۔ ہدیٰ نے ثناء کو بھی اپنے ساتھ جانے پہ راضی کرنا چاہا تھا مگر وہ نہ ہوئی تھی۔ ہادی کا صبر بس یہیں تک تھا۔ مٹھیان بھینچتے اپنا غصہ ضبط کرتے اُس نے بڑی مشکل سے خود کو ہدیٰ کے سامنے جانے سے روکا اور آگے کا لائحہ عمل طے کرنے لگا۔ وہ سوچ چکا تھا اُس نے آگے کیا کرنا ہے۔ اُس نے ایک نمبر ملایا اور کل کا بندوبست کرنے لگا۔ اگلی صبح ہدیٰ کو موقع دیتے وہ جان بوجھ کر پہلے ہی نکل گیا۔ باہر جا کر اس نے ثناء کو فون کر کے فوراََ ہدیٰ کے ساتھ جانے کو کہا ساتھ میں سختی سے منع کیا کہ وہ ہدیٰ کو ہادی کے بارے میں کچھ نہیں بتائے گی۔
وہ پورا پلان تشکیل دیتے اُسی ہوٹل کی جانب چل دیا۔ مگر ہادی کا سارا پلان اُس وقت خراب ہوا جب عین وقت پہ اُسی ہوٹل میں ہادی کو اپنے جاننے والے مل گئے۔ اس نے ان کے پاس سے اٹھنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو پایا وہ ہادی کو اس کی جاب کے حوالے سے اچھے سے جانتے تھے پھر انہی میں سے ایک کے زریعے سے وہ طلال کی ڈیٹیلز نکلوانے میں مدد بھی لے چکا تھا۔
”یار ہادی یہ وہی لڑکا ہے ناں‘ جس کی تم نے ڈیٹیلز نکلوائی تھیں۔ لگتا ہے آج کسی نئی لڑکی کا شکار کرنے لگا ہے۔ اللہ عقل دے اِن لڑکوں کو اور ایسی لڑکیوں کو بھی، جو لڑکوں کے پیسے اور واجبی سی شکل دیکھ کر اندھی ہو جاتی ہیں۔“
وہ بندہ تو اپنی رو میں بول گیا تھا مگر سامنے بیٹھے شخص کو اس کے الفاظ کسی خنجر سے کم نہ لگے تھے۔ اس وقت ہادی کا بس نہ چلا تھا وہ شرم کے مارے ہدیٰ کو مار کر خود بھی خودکشی کر لیتا۔
وہ بہانا بناتے اُن سے معزرت کرتا وہاں سے اٹھا اور اُسی فلور پہ چلا آیا جہاں طلال نے روم بک کرایا تھا۔ ہادی نے جیب میں موجود ماسٹر کی لگا کر دروازہ کھولا مگر اندر کے منظر نے اس کا دماغ گھُما دیا تھا۔
اِسی لمحے ہدیٰ نے طلال کے سر پہ سپرے کی بوتل سے زور دار وار کرتے اُس کی آنکھوں میں بھی وہی سپرے کیا اور باہر کی طرف بھاگی تھی۔ اسے باہر کو آتا دیکھ کر ہادی ایک دم پیچھے کو ہوا۔ وہاں سے نکلنے کی جلدی میں ہدیٰ‘ ہادی اور دروازے کا کھُلا لاک دونوں ہی نہ دیکھ سکی۔ باہر نکلتے اس نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے دروازے کو باہر سے لاک لگانے کی کوشش کی اور بنا ارد گرد کی پروا کئے اندھا دھند بھاگتی چلے گئی۔ اسے بھاگتے ہوئے اس بات کا زرا اندازہ نہ ہوا تھا کہ کسی کی انگارہ ہوتی آنکھوں نے کیسے اس کا آخر تک پیچھا کیا تھا۔ ہدیٰ کو سہی سلامت ثناء تک پہنچتا دیکھ کر ہادی نے ثناء کو میسج کر کے اسے کسی دوسری جگہ لے جا کر اس کا حلیہ درست کرنے کا کہا اور خود واپس اسی کمرے کی طرف چل دیا۔
طلال جو پہلے ہی اپنی آنکھیں مسلتے تڑپ رہا تھا۔ ہادی نے مار مار کر اُس کی وہ حالت کی کہ آئیندہ وہ کسی لڑکی کی طرف نظر اٹھانے کے قابل نہ رہا تھا۔
”بہت اشتیاق تھا ناں تمہیں ہدیٰ کے بھائی سے ملنے کا، لو ملو مجھ سے۔۔۔۔ ہدیٰ کے بھائی سے ملو۔“ اس کو بالوں سے جکڑے زور دار گھونسا منہ پہ مارتے ہادی غرایا۔ ناک اور دانتوں سے خون نکل نکل کر طلال کی شکل بگاڑ چکا تھا مگر ہادی کو اس پہ کوئی رحم نہ آیا ۔
”چل مل مجھ سے اب‘ ملتا کیوں نہیں ہے؟۔۔۔“
”معاف کر دو۔۔۔۔ غلطی ہو گئی۔“ طلال نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کئے۔ جس پہ ہادی کو مزید غصہ آیا۔
”غلطی؟۔۔۔ تم اسے غلطی کہتے ہو۔ دوستوں میں شرطیں لگا لگا کر نجانے تم لوگ کتنی لڑکیوں کی زندگیاں برباد کرنے کو غلطی کہہ رہے ہو۔ گناہ ہے یہ گناہ۔۔۔ جس کی معافی تم لوگوں کو اللہ بھی نہیں دے گا۔“ طلال اپنے اعصاب کھونے کے قریب تھا۔ جب سِول کپڑوں میں موجود افراد کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ ہادی نے جھٹکے سے طلال کو اُن کی طرف پھینکا۔
”اس کو میری نظروں سے دور لے جاؤ، اس سے پہلے کہ یہ میرے ہاتھوں ضائع ہو جائے۔“
وہ اس کے ہاتھوں کو ہتھکڑی میں بند کرتے لے جانے لگے جب ہادی کی آواز پہ رُکے۔
”مجھے اگلے ایک گھنٹے میں یہ پورا ہوٹل سیل چاہیے ہے۔ اور اس میں موجود ایک ایک بندہ اس کے مالک سمیت اندر چاہیے ہے۔“
وہ وارننگ دینے کے انداز میں بولا۔
”اور حیدر‘ اس کے والد صاحب اس وقت جہاں کہیں بھی ہیں اُن کو خود جا کر میرے آفس لے کر آؤ۔“ اُس نے اُن میں سے ایک لڑکے کو خاص تنبیہہ کی تو وہ سر ہلاتا باہر کو پلٹ گیا۔
وہ رات گئے جب گھر آیا تو کافی غصے میں تھا۔ گھر آتے ہی اُس نے سے پہلے ہدیٰ کا پوچھا تھا۔
”ہدیٰ کہاں ہے۔“
”اپنے کمرے میں ہے۔ جب سے لائبریری سے آئی ہے سر میں کافی درد تھا۔ دوا لے کر سو گئی ہے میرے خیال میں بخار بھی ہو رہا ہے۔ ابھی میں اسے دیکھ کر آئی تھی تو گرم ہوئی پڑی تھی۔“
اگلے دو ہفتے پھر ہادی کا ہدیٰ سے سامنا نہ ہوا تھا۔ اس پورے عرصے میں ہادی کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرتا تھا۔ وہ رات گئے گھر آتا جب وہ سو چکی ہو۔ اور یہی صحیح تھا کہ جب تک ہادی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو جاتا وہ اس کی نظروں سے دور رہتی۔
اس پورے عرصے میں ہادی‘ ثناء سے مکمل رابطے میں تھا۔ ثناء سے ہُدیٰ کی ذہنی رو جان کر اُس کا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا پڑا تھا۔ جہاں اُس کا غصہ ٹھنڈا پڑا تھا وہیں ہُدیٰ کی بگڑتی صحت اور اپنی ذات سے بےزاری دیکھ کر اُسے نئی فکر لاحق ہوئی تھی۔ جو بھی تھا وہ اِس کی جان سے پیاری بہن تھی۔ غصہ ایک طرف مگر وہ یوں اِسے اپنے ساتھ ذیادتی کرتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اُسے کاؤنسلنگ کی اشد ضرورت تھی اور وہ اُسے ہادی سے نہیں مل سکتی تھی۔ ثناء سے اِسے صالحہ یمین کا پتا چلا تو ہادی نے اُسے ہدیٰ کو لے جانے کا کہا۔ اُن کے پاس جا کر ہدیٰ میں اُسے بہت فرق نظر آیا تھا۔ اور یوں اُس کا رہا سہا غصہ بھی ختم ہوتا چلا گیا۔
YOU ARE READING
Rasam E Wafa ✔️
Spiritualیہ کہانی ہے ایسے دوستوں کی جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے ساتھی کا ساتھ نہیں چھوڑتے اور ہر صورت وفا نبھاتے ہیں۔اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ دنیا کا ہر رشتہ دوستی، بھروسے اور عزت کے بغیر ادھورا ہے۔یہ کہانی ہے ایک ایسی ہی محبت کی داستان کی ۔یہ کہانی ہ...