Episode:25

123 12 4
                                    

سب بچے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سونے کی غرض سے اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے جبکہ سب بڑے باہر لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی۔پرندوں کی چہچہاہٹ اعصاب پر ایک اچھا تاثر دے رہے تھے۔
"اللہ کا شکر ہے سب کچھ بخیر و عافیت ہو گیا۔"۔۔۔۔۔۔۔اکبر صاحب نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے سب کی طرف دیکھ کر کہا۔
"ہاں جی بہت شکر ہے اللہ کا،بہت مزہ آیا اور بچوں نے بھی خوب ہلہ گلہ کیا۔"۔۔۔۔۔۔اظہر صاحب نے بھی بڑے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"ہمارے تو فرض ادا ہو گئے۔میں تو بہت خوش ہوں میری دونوں بیٹیوں کے نصیب میں اتنے اچھے لڑکے آئے ہیں۔"۔۔۔۔۔حبہ بیگم کے لہجے سے تشکر صاف ظاہر تھا۔نمرہ بیگم نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ذرا سا دبایا۔
"بھائی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔"۔۔۔۔۔اقراء بیگم نے چائے کا کپ اٹھاتے ان سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
"ہاں بولو۔"۔۔۔۔۔۔۔اکبر صاحب نے چائے سامنے ٹیبل پر رکھتے پوچھا۔
"بات دراصل یہ ہے کہ جیسے آپ لوگوں کو بتایا تھا کہ اب ہم نے پاکستان شفٹ ہونے کا ارادہ کر لیا ہے تو اسی سلسلے میں ارتضیٰ سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ ہم اپنے لیے آپ لوگوں کے گھر کے قریب ہی کوئی اچھا سا گھر دیکھ لیں۔"۔۔۔۔۔۔انہوں نے تحمل سے ساری بات بتائی کیونکہ وہ جانتی تھیں ان کے بھائیوں کو اس بات سے ضرور اعتراض ہو گا۔
"کیسی باتیں کر رہی ہو تم اقراء ہمارا اتنا بڑا گھر کس لیے ہے کوئی ضرورت نہیں کوئی اور گھر خریدنے کی آرام سے یہی رہو اور ویسے بھی اس گھر میں تمہارا بھی حصہ ہے۔"۔۔۔۔۔۔اکبر صاحب نے ان کی بات سے صاف انکار کیا۔
"ہاں اقراء اکبر بھائی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ماشاءاللہ سے اتنا بڑا گھر ہے،سب آرام سے رہ رہے ہیں اور ویسے بھی بچے بھی خوش ہیں گھر میں رونک لگی رہتی ہے۔"۔۔۔۔۔اظہر صاحب نے بھی انہیں انکار کرتے ہوئے دلیل پیش کی ۔
"پر بھائی کل کو ارتضیٰ کے بچے ہوں گے حرم کی بھی شادی کرنی ہے اپنا گھر بھی تو ہونا چاہیے نا۔"۔۔۔۔۔۔اقراء بیگم نے اپنے خدشات بیان کیے۔
"حرم ہماری بیٹیوں جیسی ہے اس کی رخصتی تو ہم خود کروائیں گے اور  رہی بات ارتضیٰ کے بچوں کی تو جب وہ ہوں گے تب کی تب دیکھی جائے۔"۔۔۔۔۔۔اکبر صاحب نے دوبارہ ان کی بات رد کی۔
"پر بھائی ارتضیٰ۔"۔۔۔۔۔۔اقراء بیگم جانتی تھیں کہ ان کا خدار بیٹا راضی نہ ہو گا اس لیے وہ پھر بولیں۔
"اس سے ہم بات کر لیں گیں اس کی تم فکر نہیں کرو اور اب اس موضوع پر بات نہیں ہو گی تم کہیں نہیں جا رہی ساری زندگی باہر ہی تو رہے ہو اب آرام سے یہاں رہو ہمارے پاس۔"۔۔۔۔۔۔۔اکبر صاحب کے دوٹوک انداز پر اقراء بیگم خاموش ہو گئیں ان کی بات ٹالنے کی جرآت ان سب بہن بھائیوں میں سے کسی میں بھی نہیں تھی بس ان کی اپنی اولاد ہی تھی جو کبھی کبھی ضد پر اڑ جاتی تو اپنی بات سے نا ہٹتی آخر کو اولاد بھی انہی کی تھی۔
اقراء بیگم کو اب ارتضیٰ کی بھی فکر نہیں تھی وہ اپنے ماموں کی بہت عزت کرتا تھا تو وہ ان کی یہ بات کیسے ٹال سکتا تھا۔وہ مطمئن سے انداز میں اپنی بھابھیوں سے باتوں میں مصروف ہو گئی جو ان بہن بھائیوں کی بات کے بیچ میں نہیں بولتی تھیں لیکن اب الگ گھر خریدنے کی بات کرنے پر ان سے ناراض ہو رہی تھیں۔
*************
الارم کی آواز پر وہ انگڑائی لیتا بیدار ہوا رات کی تھکن اور بے سکونی کی وجہ سے وہ آج کافی لیٹ اٹھا تھا کروٹ بدلی تو بیڈ کی دوسری طرف کو خالی دیکھ کر اس کو پھر اس بےمروت کی یاد ستائی۔ وہ اس کا تکیا اٹھا کا سیدھا ہوتے اپنے سینے میں بھینچ گیا تھکن تو صرف بہانہ تھی اصل وجہ تو  یہ تھی کہ وہ ظالم اس سے دور تھی جو دو راتوں سے اس کے قریب رہ کر اسے سکون دے رہی تھی،اس کے سینے پر سر رکھ کر اس کے دل کو جو ارام دیتی تھی وہ آج میسر نہیں تھا ارتضیٰ نے سر جھکا کر اس کے تکیے میں سے اس کی خوشبو اپنے اندر اتاری جو اسے الگ ہی سرور بخش گئی جیسے وہ خود ادھر موجود ہو۔اسے اپنی اور زرتاشیہ کی حالت سوچ کر ہنسی آئی ایک وہ تھا جو اسے اپنا بنانے کے لیے کب سے بے تاب تھا اور اب بھی وہ اس کے قریب ہو کر بھی بہت دور تھی دوسری طرف وہ تھی جو پہلے نکاح کے لیے نہیں مان رہی تھی اور اب دو دن سے کیسے اسی کے سینے پر سر رکھ کر سکون سے سو جاتی تھی چاہے زبردستی ہی سہی۔ ارتضیٰ کو اپنی پرواہ ہو نہ ہو اسے ہر وقت ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ اپنی "زر" کی فکر رہتی تھی اس کا بس نہیں چلتا زرتاشیہ کو خود میں چھپا لے اور اسے ہر دکھ اور تکلیف سے دور لے جاۓ،اس کے سارے خدشات کو مٹا کر اس کو خود میں سمیٹ لے اور ایک وہ تھی جو اس سے دور جانے کا ہر حربہ آزما چکی تھی۔یہی سوچتے سوچتے وہ ماضی میں کھو چکا تھا جہاں وہ ہمیشہ کی طرح اس سے دور دور ہی رہتی تھی۔
ماضی:-
اس کی ماں کو مرے آج ایک مہینہ ہو چکا تھا اس ایک مہینے کے اندر ان دونوں بہنوں کی حالت سنبھل نہ پائی تھی۔ لائبہ تو تھی ہی حساس اس نے خود کو کمرے میں بند کر رکھا تھا اور زرتاشیہ اس نے رو رو کر اپنی حالت بری کر لی تھی نہ کچھ کھاتی،نہ پیتی۔شاہ ہاؤس کے ہر فرد نے ان کا بہت خیال رکھا ماموں،ممانیاں سب اس کو سمجھاتے۔شارمین اس کا خیال کرتے ہر وقت اس کے ساتھ رہتی لیکن اس کے آنسوں جیسے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
آج ایک مہینے کے بعد بڑوں کے اسرار پر وہ ارتضیٰ کے ساتھ باہر آئی تھی تاکہ اس کا موڈ کچھ چینج ہو سکے۔
اس ایک مہینے میں اس نے ارتضیٰ کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہ دیا وہ جب بھی آتا یا تو وہ سوتی ہوئی بن جاتی یا پھر چیخ چلا کر سختی سے اس سے ملنے سے منا کر دیتی۔
آج بھی وہ کس دل اور مجبوری سے یہاں بیٹھی تھی �ہ صرف وہی جانتی تھی۔ موسم خوش گوار تھا اس لیے ارتضیٰ اسے لے کر لونگ ڈراؤ پر نکلا راستے میں وہ مسلسل کچھ نہ کچھ بولے جا رہا تھا جس کا وہ کوئی جواب نہیں دے رہی تھی آخر کار اس چپ سے تنگ آکر وہ اسے اس کی فیورٹ آئس کریم پارلر میں لایا جہاں وہ اس وقت موجود تھے۔یہاں پر بھی ارتضیٰ نے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی جس کا کوئی اثر نا ہوا جیسے وہ سن ہی نا رہی ہو۔وہ بس چپ چاپ آئس کریم میں چمچ چلا رہی تھی۔
"زر دیکھو مانا کہ میں اور میری گاڑی تمہیں پسند نہیں مگر اپنی فیورٹ آئسکریم کے ساتھ تو ایسا مت کرو۔۔۔لو کھاؤ۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ نے اس کے ہاتھ سے آئسکریم کا باؤل لیا اور آئسکریم سے بھرا چمچ اس کے سامنے کیا مگر وہ منہ پھیر گئی۔
ایک ٹھنڈی سانس ہوا کے سپرد کرتے ارتضیٰ نے تھوڈی سے پکڑ کر  اس کا چہرہ اپنی طرف کیا.
"دیکھو میری جان میری بات سنو تم اپنے دل سے اس بات کو نکال دو کے خالہ تم سے ناراض ہو کر گئیں بلکہ تمہیں خود پتا ہے انہوں نے کتنی خوشی سے تمہیں میرے حوالے کیا ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔اسے لگا شاید وہ اس بات سے پریشان ہے کہ نکاح سے انکار پر اس کی ماں اس سے ناراض چلی گئ اس لیے وہ اسے پیار سے سمجھا رہا تھا۔
"تمہاری مرضی شامل تھی اس نکاح میں؟"۔۔۔۔۔۔۔زرتاشیہ کہ اچانک ایسا سوال کرنے پر وہ سمجھ گیا کہ اس کو کون سی فکر کھائے جا رہی ہے۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میری مرضی شامل نہیں تھی اس میں؟"۔۔۔۔۔ ارتضیٰ نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تو وہ اپنا سر جھکا گئی۔
"زر میری بات دھیان سے سنو! "۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے زرتاشیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
"تم زرتاشیہ ہو تم جب پیدا ہوئی تھی نا تو تب سے میں نے تمہیں اپنا دوست بنایا ہے۔ساری زندگی میں نے کوئی اور دوست نہیں بنایا صرف اس لیے کیونکہ میرا دل نہیں مانتا تھا کہ میں تمہاری جگہ کسی اور کو دوں۔جب بابا نے باہر شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تو میں نے تب بھی انہیں روکا تھا کیونکہ میں تم سے دور نہیں جانا چاہتا تھا مگر جب امی نے مجھے بتایا کے کچھ وقت بعد تم ہمیشہ کے لیے میرے پاس آ جاؤ گی تب میرے دل کو اطمینان ہوا۔ مجھے پتا تھا ہر کوئی تمہارا خیال رکھ سکتا ہے مگر میں تمہارے معاملے میں  بہت ٹچی ہوں اور تم جانتی ہی ہو یہ اس لیے میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ امریکہ میں میرا ایک ایک دن تمہاری یاد میں کیسے گزرتا ہے میں بتا نہیں سکتا۔اس سب کے باوجود تمہیں لگتا ہے کہ "میں؟"، "میں؟" اس نکاح سے خوش نہیں۔"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے سینے پر انگلی رکھے اس سے سوال کر رہا تھا جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
"پتا نہیں تم میری بات سمجھی ہو یا نہیں لیکن میں اپنے اس رشتے کو لے کر سب سے زیادہ آللہ اور اس کے بعد تمہارا مشکور ہوں کہ تم نے مجھے قبول کیا اپنی زندگی میں۔"۔۔۔۔۔۔۔۔
ارتضیٰ نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے پیار سے کہا جہاں وہ بے آواز رو رہی تھی۔اس کی عمر اتنی بڑی نہ تھی کہ وہ ان سب باتوں کی فکر کرتی سولہ سال کی لڑکیاں تو اس عمر میں دنیا سے بےفکر ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں لیکن اس کی زندگی کی تلخیوں نے اسے وقت سے پہلے ہی بڑا کر دیا تھا۔
"مگر تم یہ جانتے تھے نا کہ اس میں میری مرضی شامل نہیں پھر بھی سب نے مجھے مجبور کیا اور تم بھی ان سب میں شامل تھے۔"۔۔۔۔۔اس نے بے آواز روتے ارتضیٰ سے شکوہ کیا۔
ارتضی نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی اور بل پے کر کہ اسے لے کر گاڑی کی جانب بڑھا۔اسے گاڑی میں بیٹھا کر خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کی اور گھر کی طرف راہ لی۔
شاو ہاؤس کے پورچ میں گاڑی رکی تو وہ اترنے لگی جب اس نے اس کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف گھمایا اور اس کی سرخ آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھی۔
"تم نے جو سوچنا ہے سوچو پر یہ تمہارا گمان ہے کہ تم مجھ سے کچھ چھپا سکتی ہو۔ تمہیں ڈر لگتا ہے کہ جو کچھ خالہ کے ساتھ ہوا وہ تمہارے ساتھ ہو گا تو اس غلط فہمی کو دور کر لو کیونکہ ارتضیٰ حسن سب کچھ کر سکتا ہے مگر زرتاشیہ ارتضیٰ حسن کو کبھی بھی دکھ نہیں دے سکتا۔اللہ نے مجھے بہت خوبصورت تحفہ دیا ہے اور مجھے تحفوں کو سنبھال کر رکھنا اور ان کی قدر کرنا اچھے سے آتا ہے۔"۔۔۔۔اس نے اسے باور کرواتے زرتاشیہ کے ماتھے پر استحقاق سے بھرپور اپنے پیار کی پہلی مہر ثبت کی اور پیچھے ہوا تو وہ فوراً سے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر کی طرف بھاگ گئی۔
دروازے پر ہونے والی دستک پر وہ ماضی سے واپس لوٹا تو اس کے لب مسکرا رہے تھے۔ ملازمہ اسے ناشتے پر بلانے کے لیے آئی تھی اسے پانچ منٹ میں آنے کا کہہ کر وہ فریش ہونے چلا گیا۔
************
"لائبہ میری بات سنو!"۔۔۔۔۔۔وہ یونیفارم میں نک سک سا تیار تھانے جانے کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکل ہی رہا تھا جب لائبہ کو سامنے سے گزرتے دیکھ اسے روکا۔
وہ اسے اگنور کرتی آگے بڑھنے ہی لگی تھی جب وہ اسے سختی سے کھینچتا اپنے کمرے میں لایا اور ٹھا کے ساتھ دروازہ بند کرتے اسے دروازے کے ساتھ ہی پن کیا۔
"بات سنو میری!"۔۔۔۔۔۔۔وہ خود کو چھوڑوانے کے جتن کر رہی تھی جب وہ دروازے پہ ہاتھ مارتا سختی سے گویا ہوا۔
"کیوں بات سنو میں آپ کی؟ آپ بات کرتے کب ہیں آپ تو صرف ڈانتیں ہیں اور غصہ کرتے ہیں اس کے علاوہ آپ کو آتا ہی کیا؟"۔۔۔۔۔۔وہ تو شاید بھری بیٹھی تھی موقع ملتے ہی پٹر پڑ بولتی اپنی ساری بھڑاس نکال گئی۔
"کب تک ناراض رہنے کا ارادہ ہے؟"۔۔۔۔۔۔اس کا پیارا سا تپا تپا چہرہ دیکھ کر اس نے نرمی سے استفسار کیا۔وہ غصے میں بھی اس قدر حسین لگتی تھی۔اس کے سیب جیسے بھرے بھرے گال دیکھ کر حیدر کا اکثر دل کرتا کہ کوئی شدید جسارت کر بیٹھے۔
"ہمیشہ کے لیے! "۔۔۔۔۔۔۔وہ ویسے ہی منہ پھلائے ب�لی تو حیدر کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔
"تمہیں پورا حق ہے مجھ سے ناراض ہونے کا لیکن ہمیشہ کے لیے تو زیادتی ہے نا۔"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے چہرے کو چھوتی لٹ کو اپنی شہادت کی انگلی پر لپیٹے ہوئے بولا۔
"آپ کچھ بھی کریں تو جائز ہے میں کچھ کروں تو زیادتی ہے یہ کیسا انصاف ہے آپ کا؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر حیدر نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا اس بار وہ کچھ زیادہ ہی ناراض تھی۔
"آئی نو کہ میں زیادہ ہی اور ری آیکٹ کر گیا لیکن تمہیں شاید اندازہ نہیں ہے کہ میرا خون کھول اٹھتا ہے کسی کو بھی تمہارے ساتھ دیکھ کر یہ سب میری برداشت سے باہر ہے بس۔"۔۔۔۔۔۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا شدتِ جذب سے بولا آنکھوں میں سرخی صاف نمایاں تھی۔
اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے والے جزبات لائبہ کے لیے نئے نا تھے لیکن اس کی زبان سے بیان ہونے والے الفاظ ضرور نئے تھے۔
"کیوں؟"۔۔۔۔۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی بےساختہ پوچھ بیٹھی۔
"بتاؤں گا کسی دن تفصیل سے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہلکا سا ہنس کر اس کے چہرے پر پونکھ مارتے ہوئے بولا۔
"اچھا خیر شہزادی لائبہ احمد کیا آپ اپنے غلام شہریار حیدر شاہ کو ان کی خطاؤں کی معافی عطا کریں گی؟"۔۔۔۔۔۔وہ اس کے سامنے جھکتا ڈرامائی انداز میں مخاطب ہوا جس پر لائبہ اس کی ڈائلاگ بازی سنتی کھلا کھلا اٹھی۔
"ٹھیک ہے میں نے آپ کو معاف کیا لیکن آپ نے عائندہ ایسا کچھ کیا تو میں کبھی معاف نہیں کروں گی۔"۔۔۔۔۔اس نے دریا دلی کا مظاہرے کرتے اسے معافی دی لیکن ساتھ ہی ساتھ دھمکی دینا نا بھولی۔
"تم فکر مت کرو کچھ دن بعد مجھے ایک مشن کے سلسلے میں لاہور جانا ہے وہاں سے واپس آ کر میں سب ٹھیک کر دوں گا کہ پھر کسی کی جرات ہی نہیں ہو گی کہ کوئی تمہیں آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر وہ کچھ پل حیران ہوئی کیا وہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا بنانے کی بات کر رہا تھا یہ سوچتے ہی اس کے دل نے الگ ہی لہ پکڑی اگر ایسا حقیقت میں ہو جاتا تو شاید اس کا دل باہر ہی آ جاتا۔
"ہیلو۔۔۔تم اپنے چھوٹے سے دماغ پر اتنا زور مت ڈالو۔"۔۔۔۔۔۔حیدر نے اپنی بات کا اثر زائل کرنے کو اس کے سامنے چوٹکی بجا کر ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
"میرا دماغ چھوٹا نہیں ہے اور ہاں اپنے میری فیورٹ ہیلز بھی اس ویٹریس کو دے دیں میں اتنے دل سے لائی تھی۔"۔۔۔۔۔۔اس نے ناک چڑھا کر شکوہ کیا۔
"تم ایک دفع کہو میں ویسی ہزاروں ہیلز تمہارے قدموں میں پیش کر دوں گا۔"۔۔۔۔۔۔وہ ایک بار پھر اس کے قریب آتے پیار سے بولا کہ وہ پیچھے ہونے کے چکر میں دروازے سے جا ٹکرائی۔
" سچ میں؟"۔۔۔۔۔اس نے چمکتی آنکھوں سے سوال کیا۔
"ہاں بلکل سچ لیکن پہلے تم ان میں چلنا سیکھ لو پھر۔"۔۔۔۔۔حیدر کی لائبہ کہیں گر جائے یا اس کو چوٹ آ جائے یہ تو وہ کبھی برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا۔
"میں سیکھ لوں گی آپ بس اپنی بات پر قائم رہنا۔"۔۔۔۔۔۔۔وہ منہ بسور کر بولی تو حیدر نے مسکراہٹ دبائی۔
"چلو اب جاؤ مجھے بھی جانا ہے دیر ہو رہی ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔وہ اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا۔
"میں تو جا ہی رہی تھی آپ نے ہی بلایا تھا۔".۔۔۔۔۔اس نے کندھے اچکا کر اسے جتانا ضروری سمجھا کہ وہ اس کی وجہ سے لیٹ نہیں ہو رہا۔
"اچھا سنو! "۔۔۔۔۔۔وہ جاتی ہوئی لائبہ کا ہاتھ تھام کر اسے روک گیا تو لائبہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
"میرا انتظار کرو گی نا؟"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا اور لائبہ فوراً ہی سمجھ گئی کہ اس کا اشارہ لاہور جانے کی طرف ہے وہ اس کے دیکھنے پر پلکیں جھکا گئی گویا اقرار کیا ہو۔
حیدر نے اپنے دل میں ایک سکون اترتا محسوس کیا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر جانے کی اجازت دی۔
"سنو! "۔۔۔۔۔وہ ابھی باہر نکلنے ہی والی تھی جب وہ اسے دوبارہ پکار بیٹھا۔
"میں ایسا کرتی ہوں آرام سے یہاں بیٹھ جاتی ہوں آپ کو جو جو کہنا ہے ایک بار میں کہہ دیں۔"۔۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر ترخ کر بولی تو حیدر ہنس دیا۔
"بس آخری بات ہے میں پانچ بجے تک تھانے سے واپس آؤنگی تم میرے لیے ایک کپ سٹرانگ سی کافی بنا کر رکھنا بہت ٹائم ہو گیا ہے تمہارے ہاتھ کی کافی پییے ہوئے۔"۔۔۔۔۔اس نے شیشے میں اپنے بال سیٹ کرتے ہوئے لائبہ کو آرڈر دیا۔
"اچھا ٹھیک ہے اب میں جاؤں؟"۔۔۔۔۔۔۔وہ ویسے ہی سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے بولی۔
"ہاں جاؤ! "۔۔۔۔۔۔۔۔حیدر کے اجازت دیتے ہی فوراً باہر نکل گئی تو وہ بھی مطمئن دل کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے ہی نکل گیا۔
کون جانتا تھا کہ یہ وعدے وعید سب دھرے کہ دھرے رہ جائیں گے کیونکہ قسمت کب کسی محب یا محبوب کے دل کا احساس کرتی ہے۔
*************
تیرے صدقے میری ساری زندگی
رانجھنا ہو رانجھنا میرے یار وے
وہ کمرے میں بیٹھی اپنا اور ہادی کا سلو مو دیکھ رہی تھی جس میں ہادی اُس کا ہاتھ پکڑ کر گھما رہا تھا اور حرم  کے چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی جو اُسک ے ڈمپل کو نمایاں کر رہی تھی۔
"نہیں نہیں حرم وہ صرف بڈی ہے صرف بڈی اس سے زیادہ کچھ نہیں اور ویسے بھی وہ مدیحہ کو پسند کرتے ہیں دیکھا نہیں ہے اُس کے آنے پر کیسے خوش ہو رہے ہیں۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دماغ کی سوچوں کو کسی اور طرف جاتے دیکھ اس نے دل ہی دل میں خود کو ڈپٹا۔
"لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے نا کہ وہ مجھے پسند کرتے ہوں دیکھا نہیں مُجھ سے مذاق کرتے ہیں میری کیئر کرتے ہیں اور ہاں اُس دن صرف مجھے ہی آئس کریم کھلانے لے کر گئے جبکہ وہاں سمارا ، ارحم اور لائبہ بھی تو تھیں لیکن وہ مجھے کیوں لے کر گئے وہ تو مدیحہ کو پسند کرتے ہیں میں اُن کی اکلوتی کزن ہوں شائد تبھی ورنہ اگر یہاں مدیحہ ہوتی تو وہ ہی جاتی اُن کے ساتھ،ڈانس بھی اسی کے ساتھ کرتے نا کہ میرے ساتھ۔اف !!!! آہ !!!! میں بھی کیا کیا سوچ رہی ہوں۔"۔۔۔۔۔۔ دل اور دماغ کی جنگ میں وہ خ�د پس رہی تھی لیکن جیت آخر دل کی ہوئی جو گواہی دے رہا تھا کہ ہادی اسے پسند کرتا ہے ایک خوبصورت سی مسکان نے اس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا جو کمرے میں داخل ہوتی لائبہ نے دور سے ہی تاک لی۔
"اوہ ہو !!! کون ہے وہ موٹا چھوٹا کھوٹا؟"۔۔۔۔۔۔۔لائبہ چائی کا کپ ٹیبل پر رکھتے اس سے مخاطب ہوئی۔
"ک۔۔۔کوئی نہیں۔"۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے ہڑبڑا کر فون بند کیا اور جلدی سے تکیے کے نیچے ڈال دیا کہ کہیں لائبہ چھین ہی نہ لے کیونکہ وہ اسی کے ساتھ بیٹھنے آ رہی تھی۔
"بتاؤ بتاؤ مجھ سے کیا شرمنا؟"۔۔۔۔۔۔ اُس نے اس کے کندھے سے کندھا ٹکراتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
"ارے یار کچھ نہیں بھائی کی شادی کی سیلفی دیکھ رہی تھی بس۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا دفاع کرتے بہانہ بنایا۔
"تم اسے چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ سکندر کی امی جان پوری شادی میں دونوں ممانیوں کے آگے پیچھے گھوم رہی تھیں آخر ماجرا کیا ہے؟"۔۔۔۔۔۔۔۔حرم نے اپنی طرف سے لائبہ کا دیہان بٹانے کے لیے جان کر سکندر کا ٹوپک چھیڑا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہی۔
لائبہ ایک دم چونکی اور اُسے کچھ دیر پہلے ہوئی حیدر کے ساتھ ملاقات یاد آئی دل میں ایک بیٹ مس ہوئی اور ایک شرملی سی مسکرہٹ نے لبوں پہ اپنی جگہ بنائی۔
"اوہو مطلب آگ دونوں طرف برابر کی لگی ہے اس لیے یوں مسکرایا جا رہا ہے؟"۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار حرم نے لائبہ کے کندھے سے کندھا ٹکرایا۔
"اوہ بھئ میں تو سکندر کو بندر بولنے پر مسکرا رہی تھی۔"۔۔۔۔۔لائبہ نے سٹپٹا کہ جلدی سے وضاحت دی۔
"ویسے تم میری چھوڑو اپنا بتاؤ وہ کیا کہتے ہیں،یاد نہیں آرہا۔۔۔۔ہاں!!!!! بڈی،بڈی اور تمہارا کیا سین ہے؟"۔۔۔۔۔۔۔۔لائبہ نے بات گھمائی مگر جانے انجانے میں اپنا دفع کرتے ہوئے اُس کا تیر نشانے پر لگا تھا اب کی بار سٹپٹانے کی باری حرم کی تھی۔
"وہ میرے بیسٹ فرینڈ ہیں اور کزن ہیں بس اور کیا؟"۔۔۔۔۔۔حرم نے معمولی انداز میں جواب دیا اندر سے دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔
"ہاں ہاں بلکل صحیح کہہ رہی ہے حرم۔"۔۔۔۔۔۔۔ زرتاشیہ جو گرین ٹی کا کیپ تھامے دروازے پر کھڑی اُن دونوں کی  گفتگو ملاحظہ فرما رہی تھی اچانک بولی۔وہ اچھے سے ہادی اور حرم کے رشتے کے بارے میں جانتی تھی لیکن کیونکہ حرم اس سب سے ناواقف تھی تو شرارت کرنا تو بنتا تھا۔
"جی بھابی اس کو دیکھیے کیسی کیسی باتیں کر رہی ہے میں نے سکندر کو بندر کیا بول دیا یہ تو میرے پیچھے چھوریاں لے کر پڑ گئی ہے بندریا۔"۔۔۔۔۔۔۔ لائبہ کی خونخوار نظریں خود پر جمی دیکھ کر وہ اٹھ کر جلدی سے قریب آتی زرتاشیہ کے پیچھے چھپی۔
"حرم کی بچی بار بار اس سکندر کا نام مت لو، آپی اس کو دیکھیں نا۔"۔۔۔۔۔۔۔۔لائبہ سکندر کے نام پر چڑھ کر بولی۔
"حرم مت تنگ کرو میری بہن کو۔"۔۔۔۔۔۔۔زرتاشیہ نے لائبہ کو گلے لگاتے حرم کو ٹوکا تو وہ منہ بنا گئی۔
"ویسے نند صاحبہ آپ کہیں تو سہی بات ہم آگے بڑھا دیں گے۔"۔۔۔۔۔۔۔ زرتاشیہ نے باتوں باتوں میں اُس کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
"بابھی آپ  بھی نہ"۔۔۔۔۔۔۔ حرم جو اُس کے قریب کھڑی تھی پھولے ہوئے منہ کے ساتھ فوراً اپنی جگہ پر واپس آ گئ۔
"میں تو اس لیے پوچھ رہی تھی کہ عالیہ چچی بھی اکیلی ہوتی ہیں تو سوچا ایک بہو کا انتظام کروا دیں ویسے بھی ہادی تو گھوڑی چڑھنے کے لیے بیتاب ہے۔"۔۔۔۔۔۔ وہ اُس کے پاس آتے ہوئے اس کے گال کھینچ کر بولی۔
حرم بظاہر تو کچھ نا بولی لیکن اندر سے دل بلیوں اچھل رہا تھا جس پر وہ خود بھی حیران تھی۔
"چلو تم نہیں تو مدیحہ صحیح۔"۔۔۔۔۔۔ زرتاشیہ نے گرین ٹی کا سپ لیتے ہوئے کہا وہ مدیحہ کو اچھی طرح جانتی تھی لیکن اس بات سے بےخبر تھی کے حرم اُسے خار کھاتی ہے۔
"مدیحہ!! یار وہ کتنی کول تھی نا گرین آنکھیں اور کیا ٹینس کھیلتی تھی۔"۔۔۔۔۔۔ لائبہ نے بے ساختہ اُس کی تعریف کی۔
" کون ٹینس کھیلتی تھی؟"۔۔۔۔۔۔۔۔  شارمین سمارا اور ارحم کمرے میں داخل ہوئیں تو سمارا نے سوال کیا۔
"بس محلے کی عورتوں کی طرح کان لگانے کی عادت نہیں جائے گی نہ تمہاری؟"۔۔۔۔۔۔۔ زرتاشیہ نے آتے ہی اُس کی عزت افزائی کی باقی دنوں کے مقابلے اس کا موڈ آج قدرے بہتر تھا۔
"جی بڑی بی بلکل دُرست فرمایا۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمارا نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔
"یار مدیحہ کی بات کرہی ہوں۔"۔۔۔۔۔۔ لائبہ نے فوراً جواب دیا ورنہ ان کی تقرار لمبی ہی ہو جانی تھی۔
"کون مدیحہ؟"۔۔۔۔۔۔ ارحم نے ذہن پر زور دیا۔
"وہی یار جو ہر وقت ببل چباتی تھی۔"۔۔۔۔۔ سمارا نے اُسے یاد دلایا۔
"ہاں ہادی کی کزن بلی جیسی آنکھوں والی۔"۔۔۔۔۔۔ شارمین یاد آتے ہی بولی۔
مدیحہ ارحم اور سمارا کے ایج گروپ کی تھی۔ اسکول میں بھی وہ ان کے ساتھ ہی پڑھتی تھی لیکن پھر میٹرک کے بعد مدیحہ اور اُس کے پرنٹس امریکہ شفٹ ہو گئے اور اس کے بعد ان کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
"ڈائن جیسی آنکھوں والی۔"۔۔۔۔۔۔ حرم منہ ہی منہ میں بڑبرائی
"حرم تمہاری تو ملاقات ہوتی ہو گی نا مدیحہ سے؟"۔۔۔۔۔ ارحم نے اس کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"اتنی ملاقات ہوتی ہے کے اگر کسی حادثے میں  میری یاداشت چلی جائے تو میں سب بھول جاؤں گی لیکن مدیحہ مجھے یاد رہے گی۔"۔۔۔۔۔۔ حرم نے طنز کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے جواب ڈیا جس پر وہ سب قہقہہ لگا اٹھیں۔
"ہاں یار وہ ہے ہی اتنی اٹریکٹو بندہ بھول ہی نہیں سکتا۔"۔۔۔۔۔۔۔لائبہ نے ایک بار پھر اس کی تعریف میں قصیدے پڑھے۔
"تم رشتے دے دینا اب جب وہ آئے گی تو۔"۔۔۔۔۔۔سمارا نے حرم کا غصہ دیکھ کر کہا
"ہاں تو دے تو رہے ہیں ہادی کا رشتہ۔"۔۔۔۔۔ لائبہ فٹ سے بولی۔
"تم زیادہ ایکسائٹڈ مت ہو اگلی باری تمہاری لگ رہی ہے مجھے۔"۔۔۔۔۔شارمین نے حیدر کی آنکھوں میں دن با دن لائبہ لے لیے بڑھتی ہوئی محبت دیکھ کر کہا۔
"شاہ ہاؤس میں شادیوں کا نا ختم ہونے وا�ا سلسلہ شروع ہو چکا ہے پہلے یہ دونوں گئیں۔"۔۔۔۔۔۔۔اشارہ شارمین اور زرتاشیہ کی طرف تھا
"پھر اب اگلی باری اس کی ہے۔"۔۔۔۔۔۔اشارہ سمارا کی طرف تھا "اور یقیناً اس کے ساتھ ہی تمہاری بھی ہو جائے گی۔" ۔۔۔۔۔اب کی بار اشارہ لائبہ کی طرف تھا
"حیدر بھائی تو ویسے ہی تلے بیٹھے ہیں شادی کے لیے۔حرم تم آؤ ہم دونوں چلتے ہیں۔"۔۔۔۔۔۔۔ ارحم جو اب شادی کے نام سے بیزار بیٹھی تھی ایک دم پھٹ پڑی۔
"توبہ توبہ تپ کیوں رہی ہو کہو تو تمہارے لیے بھی ایک دولہے کا بندوبست کر دیں۔"۔۔۔۔۔۔ زرتاشیہ نے اس کو تپتے دیکھ مزید تپایا۔
"یہ دیکھیں میرے ہاتھ مجھے تو ان سب سے دور ہی رکھیں۔"۔۔۔۔۔۔ ارحم اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
"میری بہن کے لیے تو دیکھنا شہزادہ آئے گا۔"۔۔۔۔۔۔۔ شارمین ارحم کو اپنے ساتھ لگتے ہوئے بولی
"ایک تو ان دونوں بہنوں نے شادی کے بعد پارٹی بدل لی ہے۔"۔۔۔۔۔۔ لائبہ اور سمارا ہم آواز بولیں۔
جس پر دوبارہ سب کا قہقہہ بلند ہوا۔
"تمہارا شہزادہ تو آ چکا ہے تو اب تو تم ایسے ہی بولو گی نا۔"۔۔۔۔۔۔ حرم آنکھیں گھما کر بولی اشارہ روحان کی جانب تھا
اس ذکر پر اس کے چہرے پر سرخی پھیلنے کے بجائے ناگواری چھا گئی جو بغور ارحم اور شارمین نے محسوس کی تھی۔
"تم نے ہمیں ابھی تک ٹریٹ بھی نہیں دی بہت میسنے ہو تم اور روحان بھائی۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی لائبہ بول پڑی ۔
"کیا روحان روحان لگا رکھی ہے عجیب تم لوگوں کے پاس کوئی اور ٹاپک نہیں اچھے خاصے موڈ کا ستیاناس کر دیا ہے روحان نہیں ہو گیا قطر کا شہزادہ ہو گیا۔"۔۔۔۔۔ تلخ لہجے میں کہتی وہ تن فن کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
پیچھے سب حیرت سے اس کی پشت دیکھتے رہ گئے۔
"ابھی وہ تھوڑی ڈپریسڈ ہے ایکدم سے اس کی منگنی یوئی ہے اسے حقیقت ایکسیپٹ کرنے کے لیے تھوڑا وقت چاہئیے دیکھنا جیسے ہی اسے اپنی لہجے کی تلخی کا احساس ہوگا فوراً آ کر معافی مانگے گی۔"۔۔۔۔۔۔ لائبہ اور حرم کے چہرے پھیکے پڑتے دیکھ دیکھ شارمین انہیں سمجھاتی ہوئی بولی اور سمارا کے پیچھے گئی اس کو سمارا کا روحان کے بارے میں اس لہجے میں بات کرنا بلکل پسند نہیں آیا تھا۔
************
"اور برخوردار کیا پلین ہے؟"۔۔۔۔۔۔۔۔ اکبر صاحب نے کھانے کے دوران ارتضیٰ سے پوچھا۔
اس وقت وہ سب شاہ ہاوس میں موجود تھے جہاں سب کے ڈنر کا احتمام کیا گیا تھا سب اکھٹے لاؤنج میں موجود کھانے کے دوران خوشگپوں میں مصروف تھے جب اکبر صاحب نے ارتضیٰ سے سوال کیا
"کس چیز کا؟"۔۔۔۔۔۔اس نے سرسری انداز میں پوچھا
"ہنی مون کا۔"۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا
اکبر صاحب کی بات پر جہاں زرتاشیہ کا دل دھڑکا وہیں ارتضیٰ نے شرارتی نظروں سے اس کی جانب دیکھا نظریں ملنے پر اس نے مقابل کو آنکھ ماری جس پر زرتاشیہ نے سٹپٹا کر نظریں پھیر لیں۔اس کی یہ حرکت بڑوں کی نظروں میں تو نہ آئی کیونکہ وہ سب کھانے میں مصروف تھے لیکن ینگ جنریشن کی تیز نظروں سے مخفی نا رہ سکی جس پر ان سب کو کھانسی کا دورہ پڑا۔
ارتضیٰ نے سب کو گھوری سے نوازہ جبکہ اکبر صاحب نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ دیا جس پر سب تیر کی طرح سیدھے ہو کر ایسے بیٹھ گئے جیسے وہاں کوئی موجود ہی نہیں۔
"مجھے واپس امریکہ جانا ہے مامو تو زرتاشیہ بھی میرے ساتھ ہی جائے گی میں وہیں پر اسے گھما پھرا دوں گا۔"۔۔ ۔۔۔۔ ارتضیٰ نے چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے بتایا۔
جہاں اس کی بات پر اکبر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا وہیں زرتاشیہ گھبرا گئی وہ کسی بھی صورت امریکہ شفٹ نہیں ہونا چاہتی تھی بعد میں بات کرنے کا ارادہ کر کے وہ فلحال خاموش ہی رہی۔
"اور فارس تمہارا کیا پروگرام ہے ؟"۔۔۔۔۔۔۔ اب کی بار اظہر صاحب نے سوال کیا۔
"میں تو تیار تھا جانے کے لیے چھوٹے بابا لیکن آپ کی بیٹی نے ہی انکار کر دیا۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ فارس نے کندھے اچکا کر بڑی ہوشیاری سے سارا ملبہ شارمین پر ڈال دیا۔
فارس کی بات پر شارمین جو پانی پی رہی تھی کھانسنے لگی پھر قدرے سنبھل کر فارس کو گھورا جس نے جواباً ایک شاطرانہ مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی جیسے کہہ رہا ہو
"بڑا شوق تھا نہ شادی کرنے کا تو اب بھگتو۔"
"بیٹا تم نے انکار کیوں کیا؟"۔۔۔۔۔۔نمرہ بیگم نے کسی خدشے کے تحت محبت سے اس سے پوچھا وہ اپنے بیٹے کو اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ کتنی ٹیرھی چیز ہے۔
"بڑی ماما بس شادی کے فنکشنز کی وجہ سے بہت تھکن ہو گئی ہے کچھ عرصے تک گھر پر ہی آرام کرنا چاہتی ہوں جب تھکاوٹ دور ہو جائے گی تو آرام سے چلے جائیں گے تا کہ اچھے سے انجوائے بھی کر سکیں۔"۔۔۔۔۔۔ فارس کی بات پر اسے دکھ کے ساتھ ساتھ غصہ بھی بہت آیا لیکن وہ جلدی سے بہانہ گڑھ گئی۔
"چلو سہی جیسے تم لوگ کمفرٹیبل رہو۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بول کر کھانے میں مصروف ہو گئیں۔
ایک پل کے لیے تو اس کا دل کیا سچ بول دے مگر اس جھلی کو بھلا کہاں منظور تھا کہ اس کی محبت کو سب کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے فارس اکبر شاہ کے آگے اسے کوئی دوسرا نظر ہی کہاں آتا تھا۔
"اچھا اگر ہنی مون پوسٹ پونڈ کر دیا ہے تو بچیوں کو یہیں پاس کہیں گھمانے کے لیے لے جاؤ۔"۔۔۔۔۔۔۔۔حبہ بیگم نے انہیں مشورہ دیا۔
جس پر باقی سب کے ساتھ فارس کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا اتنا تو وہ اب اپنی انارہ کے لیے کر ہی سکتا تھا۔ فارس اور ارتضیٰ دونوں نے ان کی بات پر اثبات میں سر ہلا دیا۔
تمام بڑے کھانا کھا کر اندر کمرے میں جا چکے تھے جبکہ شاہ ہاؤس کی لڑکیوں نے ملازمہ کے ساتھ مل کر برتن سمیٹ دیے تھے۔ اب سب آرام دہ انداز میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
"جاؤ سمارا سب کے لیے چائے بنا کر لاؤ ۔"۔۔۔۔۔۔ حیدر نے اپنے ساتھ بیٹھی سمارا کو کندھے سے ہلا کر کہا جو لیٹنے کے سے انداز میںبیٹھی ہوئی تھی۔
"میں؟"۔۔۔۔۔۔۔اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا جیسے یقین ہی نہ آیا ہو۔
"ظاہر ہے تم ، اب یہاں مجھے کوئی دوسری سمارا تو نظر آ نہیں رہی۔"۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔
اس کی بات پر سمارا نے آنکھیں گھمائی جبکہ باقی سب نے مسکراہٹ دبائی سب کو ہی معلوم تھا وہ کتنی کام چور ہے۔
"ملازمہ سے کہہ دیں نا میں تھکی ہوئی ہوں۔"۔۔۔۔۔ اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
"مجھے اپنی بہن کے ہاتھ کی چائے پینی ہے اور کون سا تم نے پہاڑ سر کیا ہے جو تھکی ہوئی ہو؟"۔۔۔۔۔۔ حیدر نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"بیا یار میری پیاری بہن۔۔۔۔۔۔"
"خبردار! جو تم نے اسے کہا سارے کام اس سے کرواتی ہو چائے بنانا بھی بھلا کوئی کام ہے چپ چاپ جا کر سب کے لیے چائے بناؤ۔"۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ بات مکمل کرتی اس سے پہلے ہی حیدر نے بمشکل سنجیدگی برقرار رکھ کر اس کی بات کاٹی۔
"میں بنا دیتی ہوں۔"۔۔۔۔۔۔ لائبہ فوراً سے کھڑی ہو گئی۔
"تم چپ کر کے بیٹھو۔"۔۔۔۔۔ حیدر نے اسے آنکھیں دکھا کر ڈپٹنے والے انداز میں کہا تو لائبہ فوراً سے واپس بیٹھ گئی۔
"جا رہی ہوں دیکھیے گا اب آپ کو میری ضرورت پڑے گی نا تو کوئی کام نہیں کرنا میں نے،نہیں کرنی آپ کی مدد۔"۔۔۔۔۔۔۔ وہ جھک کر اس کے کان میں دھمکیاں دیتی یہ جا وہ جا جبکہ وہ سر جھکا کر مسکرا دیا۔
سب دلچسپی سے ان کی گفتگو دیکھ رہے تھے سب کو معلوم تھا شہریار حیدر شاہ ہی وہ واحد شخص ہے جس کے آگے سمارا اظہر شاہ کی ایک نہیں چلتی۔
"اسلام علیکم!"۔۔۔۔۔۔۔۔ روحان کی آواز پر سب اس کی جانب متوجہ ہوئے تو مسکراتے ہوئے حیدر نے لب بھینچ لیے کل رات سے وہ غائب اب واپس آ رہا تھا اس کی یہی مصروفیات حیدر کو ناپسند تھیں۔
"لو آگئے نئے نئے منگنی شدہ لوگ منگنی کے بعد تو فوراً غائب ہو گئے کہ کہیں ٹریٹ ہی نا دینی پڑ جائے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ نے شرارتی انداز میں کہا
"کس خوشی کی ٹریٹ نکاح ہوتا تو خوشی خوشی دے دیتا۔"۔۔۔۔۔۔۔ اس نے منہ بسور کر لائبہ اور حرم کے درمیان بیٹھتے ہوئے کہا جبکہ نظریں کسی اور کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
اس کی بات پر سب نے ہنس دیے۔
"کچن میں ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ لائبہ نے اس کے قریب ہوتے سرگوشی کی۔
"تم بہت چالاک نہیں ہوتی جا رہی؟"۔۔۔۔۔۔۔ روحان نے اس کے سر پر چت لگاتے ہوئے کہا۔
"آپ کی صحبت کا اثر ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔ وہ شرارتی انداز میں بولی جبکہ روحان نے اس کو گھور کر مسکراہٹ چھپائی۔
"ویسے یہ ماہان کام کس نے سر انجام دیا؟"۔۔۔۔۔۔۔ اس کا اشارہ کچن میں کھڑی سمارا کی جانب تھا
"دی ون اینڈ اونلی حیدر بھائی۔"۔۔۔۔ اس نے فخریہ انداز میں ایسے بتایا جیسے یہ اس نے خود کیا ہو خیر حیدر بھی تو اس کا ہی تھا جبکہ روحان نے ہونٹوں کو اوو کی شیپ دی۔
"مجھے تو دیں گیں نا ٹریٹ میں آپ کی چھوٹی سی پیاری سی بہن ہوں۔"۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے معصومیت سے آنکھوں جھپکا کر کہا تو
وہ اس کی ایکٹنگ پر عش عش کر اٹھا
"تمہیں دے دوں گا مگر کسی کو بتانا نہیں۔"۔۔۔۔۔ اس نے سرگوشی میں کہا۔
وہ چاہ کر بھی اسے انکار نہیں کر سکتا تھا چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب ہی اس کے لاڈ اٹھاتے تھے۔
"روحان بھائی میں نے سب سن لیا ہے میں بھی تو آپ کی چھوٹی بہن ہوں۔"۔۔۔۔۔۔ حرم اس کی جانب جھکتے مسکراہٹ دبا کر بولی۔
"افف اللہ کہاں پھس گیا میں۔"۔۔۔۔۔ وہ بے بسی سے بولا
"مجھے بھی دیں ورنہ میں باقی سب کو بتا دوں گی کہ آپ چھپ چھپ کر لائبہ کو ٹریٹ دے رہے ہیں پھر سب کو دینی پڑے گی۔"۔۔۔۔۔۔ وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی
"یہ تم دونوں اپنی عمر دیکھو اور دھمکیاں دیکھو؟"۔۔۔۔۔ اس نے دونوں کو گھورا جبکہ وہ دونوں قہقہ لگا گئیں۔
"اچھا تم دونوں کو دے دوں گا اور کسی کو نہیں۔"۔۔۔۔۔۔ اس نے قطعی انداز میں کہا جس پر ان دونوں ایک دوسرے کو تالی ماری۔
"یہ تم لوگ کونسی راز و نیاز کی باتیں کر رہے ہو؟"۔۔۔۔۔ارحم نے ان کو گھورتے ہوئے کہا جن کے چہرے سے مسکراہٹ جدا نہیں ہو رہی تھی۔
"سیکریٹ ہے۔"۔۔۔۔۔۔دونوں یک زبان بولیں۔
" تم دونوں سے تو میں بعد میں پوچھوں گی۔"۔۔۔۔۔ ارحم نے ان کو گھورا ۔
"یہ جو تم روحان کو منگنی کی ٹریٹ کا کہہ رہے ہو خود تو شادی کی ہے اپنی ٹریٹ نہیں دینی؟"۔۔۔۔۔زرتاشیہ نے ارتضیٰ کو آڑے ہاتھوں لیا ۔
"ہاں تو میں نے کب انکار کیا ہے ہم تو اتنے خوش ہیں اتنے خوش ہیں کہ ٹریٹ کیا چیز ہے ہم تو اپنا آپ لٹا دیں۔"۔۔۔۔۔ آخر میں وہ اس کی جانب جھک کر دلبرانہ انداز میں بولا۔
"اپنا ٹھرک ہر جگہ مت شروع کر دیا کرو۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دانت پیس کر کہا ۔
"میرے رومانس کی دشمن۔"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ منہ بنا کر بولا۔
"فارس بھائی اور ارتضیٰ بھائی آپ لوگ کب ٹریٹ دے رہے ہیں؟"۔۔۔۔۔۔۔ ارحم نے اشتیاق سے پوچھا
"کوئی پلین بنا لو۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے پوچھنے پر عالم سے باتوں میں مصروف فارس نے سرسری سا جواب دیا۔
"کس چیز کا پلین؟"۔۔۔۔۔سمارا چائے کی ٹرے لے کر لاؤنج میں اینٹر ہوتے ہوئے بولی
"فارس اور ارتضیٰ بھائی کی شادی کی ٹریٹ کا۔"۔۔۔۔۔۔ جواب حرم کی طرف سے آیا تھا ۔
"او ہاں! میں تو بھول ہی گئی تھی جلدی جلدی دے دیں پھر میں نے واپس بھی جانا ہے۔"۔۔۔۔۔۔ اشتیاق سے بولتی وہ دھپ سے واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی جبکہ حیدر کو گھورنا نہیں بھولی تھی۔
"تم نے عجیب لاہور میں خود کو پھسایا ہوا ہے۔".۔۔۔۔۔۔۔ شارمین تپ کر بولی۔
"اب تو آخری سیمیسٹر رہ گیا ہے بس۔"۔۔۔۔۔۔اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
روحان نے اس کی بے نیازی بغور ملاخطہ فرمائی اب ایک تفصیلی ملاقات بہت ضروری ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔
"تجھے کیا صدمہ لگا ہوا ہے؟"۔۔۔۔۔۔۔حیدر جو تب سے ہادی کو خاموش بیٹھا دیکھ رہا تھا آخر بول پڑا۔
"نہیں میں کچھ سوچ رہا تھا۔"۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک سوچ میں ڈوبا ہوا �ھا۔
"تم سوچتے بھی ہو اتنی عقل ہے؟"۔۔۔۔۔۔۔عالم شرارت سے بولا اور حیدر کو تالی ماری۔
"جہاں سب کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے ہادی ارسلان علی کی شروع ہوتی ہے۔"۔۔۔۔۔۔ وہ گردن اکڑا کر بولا۔
"چل چل بس اتنی بھی نا چھوڑ اور بتا کیا سوچ رہا تھا۔"۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ اس کی گردن پر تھپڑ مارتا ہوا بولا ۔
"اب نہیں بتاؤں گا میں کوئی عزت ہی نہیں ہے میری، یہاں اب ایک سیکنڈ رکنا بھی میری توہین ہے۔"۔۔۔۔۔ وہ مصنوعی آنسوں صاف کرتا کھڑا ہو گیا۔
"وہ رہا دروازہ۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ روحان نے داخلی دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اس کی بات پر سب کے قہقہے ابل پڑے جبکہ ہادی کا منہ کھل گیا۔
"میں سچی میں جا رہا ہوں۔"۔۔۔۔۔۔ وہ دلبرداشتہ ہوتے ہوئے بولا
"چلا بھی جا اب۔"۔۔۔۔۔۔۔ عالم چائے پیتے ہوئے بولا۔
اس کی بات پر ہادی نے قدم اٹھایا ہی تھا کہ فارس نے اسے کھینچ کر واپس بٹھا لیا ۔
"چل زیادہ ڈرامے نا کر بتا کیا سوچ رہا تھا؟"۔۔۔۔۔۔فارس مسکراہٹ دبا کر بولا۔
"فارس بھائی آپ بھی؟"۔۔۔۔۔۔۔ اسے پھر سے صدمہ لگ گیا۔
"اچھا اچھا دی گریٹ ہادی ارسلان علی نے کیا سوچا ہے کچھ عرض کریں گیں؟"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بولا تو ابھی بھی تنظزیہ لہجے میں ہی تھا لیکن ہادی نے اسے عزت سمجھ کر قبول کیا۔
"یہ ہوئی نا بات۔"۔۔۔۔۔ وہ سیدھا ہو کر گردن اکڑا کر بیٹھ گیا
"بڈی یار اب بتا بھی دیں۔"۔۔۔۔حرم بیزارگی سے بولی
"ہمم تو میں نے سوچا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سوچنے کی ایکٹنگ کرتا پھر بریک لگا گیا۔
"ہادی!!!!!!"۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے رکنے پر سب نے دانت پیس کر اس کا نام پکارا۔
"ہم سارے ہائکنگ پر چلتے ہیں واپسی پر ڈنر کریں گیں کیسا؟"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جلدی سے بولا اور داد وصول کرنے کے لیے گردن اکڑائی۔
اس کا آئڈیا سب کو ہی پسند آیا تھا لیکن اس کی طرح سب نے ایک ڈرامائی پاز لیا ہادی جو داد وصول کرنے کا خواہاں تھا تپ کے ان سب کو گھورنے لگا۔
"اوکے ڈن!"۔۔۔۔۔۔۔۔سب ایکسائٹڈ سے بولے تو ہادی نے کالر جھاڑے۔
"خان صاحب آپ بھی چل رہے ہیں۔"۔۔۔۔۔عالم کو موبائل پر مصروف دیکھ کر ہادی بولا تھا۔
"یار نہیں میں تو نہیں جاؤں گا، تم لوگوں کے فیملی ٹریپ میں میرا کیا کام؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم نے انکار کرنے کو ہی ترجیح دی۔
"کوئی انکار نہیں چلے گا تم بھی ہمارے ساتھ چلو گے اور دوسری بات یہ ہے کہ تم بھی ہماری فیملی ہی ہو جیسے کہ چھوٹی ماما نے کہا تھا کہ ہمارے لیے جیسے حیدر ہے ویسے ہی تم ہو اس لیے عائندہ یہ بات مت کرنا۔"۔۔۔۔۔۔ فارس نے قطعی انداز میں بولتے اس کی ساری باتیں رد کیں روحان کے برخلاف اس کو یہ ڈیسنٹ سا عالم بہت پسند تھا۔
اس نے بے بسی سے حیدر کی جانب دیکھا جس نے کندھے اچکا دیے جبکہ وہ اتنے خلوص پر انکار نہیں کرپایا اور مسکرا دیا۔
"ویسے جانا کب ہے؟کل؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔شارمین نے ایکسائٹڈ ہو کر پوچھا اس کو بچپن سے ہی ایسی پکنکس کا بہت شوق تھا۔
"نہیں کل تو بلکل نہیں مجھے کام ہے پہلے ہی آفس سے کافی دن اوف ہو گیا ہے اگلے ہفتے میں کرو۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ فارس انکار کرتا ہوا بولا وہ کل ایک بہت بڑی ڈیل کریک کرنے والا تھا جس پر وہ شادی کے دنوں میں بھی کام کرتا رہا تھا۔
"کیا بھائی یار اتنا لیٹ نہیں آپ کے کام تو ویسے بھی ختم نہیں ہوتے۔"۔۔۔۔۔۔۔ ارحم منہ بنا کر بولی جبکہ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
"فارس چلیں نا ایک دن کی تو بات ہے آگے پھر سب کی سٹڈیز کا اشو ہے اور سمارا نے بھی اسی ویک میں واپس جانا ہے اب کیا ہم اس کے بغیر جائیں گیں؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شارمین اس کا بازو پکرتی ہوئی بولی اس کی بات پر فارس نے ایک نظر اس ہاتھ میں موجود اپنے بازو اور دوسری نظر سمارا کی جانب دیکھا جس نے ایسی شکل بنائی ہوئی تھی جیسے اس سے زیادہ معصوم کوئی اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔
"فارس پلیز!"۔۔۔۔۔۔۔ شارمین پھر سے بولی
"اوکے لیکن کل نہیں پرسوں۔"۔۔۔۔۔۔ وہ سرینڈر کرتے ہوئے بولا تو اس کی بات پر سب نے شور مچایا۔
"کوئی سب بڑوں سے بھی پوچھ لے۔"۔۔۔۔۔۔زرتاشیہ نے مشورہ دیا۔
"فارس بھائی زندہ بعد۔"۔۔۔۔۔۔ لائبہ نعرہ لگاتے ہوئے بولی اشارہ یہ تھا کہ فارس سب بڑوں کا سنبھال لے گا جبکہ سب ہنس پڑے۔
"بندہ کچھ خیال ہی کر لیتا ہے کہ کنوارے لڑکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے بھی جزبات ہیں۔"۔۔۔۔۔۔ روحان شارمین کے فارس کا بازو پکڑنے اور ارتضیٰ کے زرتاشیہ سے چپک کر بیٹھنے پر ظنز کرتے ہوئے بولا۔
جبکہ باقی کنواروں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"کنوارے لڑکے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔"۔۔۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ مزید زرتاشیہ سے چپکتے ہوئے بولا جس پر زرتاشیہ نے زور سے اس کے پیٹ میں کونی ماری تو وہ کراہ کر دور ہوا۔
"تیرے لیے تیری بیوی ہی کافی ہے کیپ اٹ اپ زرتاشیہ۔"۔۔۔۔۔۔۔ روحان تیلی لگاتے ہوئے بولا
جس پر محفل زعفران ہوئی وہیں ارتضیٰ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے دھمکی دینے لگا جسے زرتاشیہ نے ہوا میں اڑا دیا۔
"ویسے خان صاحب آپ اتنے عرصے باہر رہے ہیں کبھی کسی لڑکی نے پرپوز کیا ہے آپ کو؟ آپ پر کرش تو بہت کو ہو گا اتنے ہاٹ جو ہیں۔"۔۔۔۔۔۔۔ہادی کی رگ پھر پھڑکی جبکہ باقی سب اشتیاق سے عالم کی طرف دیکھنے لگ گئے خاص طور پر لڑکیاں۔
وہ سب کو اپنی جانب متوجہ پاکر سٹپٹا گیا
"شرماؤ مت بتا دو۔"۔۔۔۔۔۔ روحان بھی اس کی حالت سے محفوظ ہوتے ہوئے بولا
"ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ان سب کاموں سے دور ہی رہتا ہوں۔"۔۔۔۔۔۔عالم نے صاف صاف جواب دیا۔
"ہاں تو ہم تیری بات تھوڑی کر رہے ہیں ہم تو لڑکیوں کا پوچھ رہے ہیں۔"۔۔۔۔۔۔۔۔حیدر بھی دلچسپی سے بولا۔
"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔"۔۔۔۔۔۔وہ دوبارہ انکار کر گیا۔
"ایسا تو نہیں ہو سکتا اتنے سال ادھر ہاسٹل میں رہے ہیں کوئی افئیر تو لازمی ہو گا۔"۔۔۔۔۔۔ارحم اور عالم کے بارے میں کوئی گوہر افشانی ن� کرے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔
"مجھے افیئر چلانے یا ٹائم پاس کرنے میں کوئی دلچسپی نہی ہے اگر کوئی مجھے سامنے سے بھی افر کرے تو میں اسے منہ پر جواب دے دیتا ہوں۔"۔۔۔۔۔۔وہ ارحم کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے بولتے نظریں پھیر گیا۔
"اس کا مطلب ضرور کسی نے سامنے سے تمہیں پرپوز کیا ہے۔"۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ نے اس کی بات پکڑی جس پر سب اسے شاکی نظروں سے دیکھنے لگے بلخصوص ارحم اور ارحم کی بدگمانی دور کرنا تو اب لازم ہو گیا تھا۔
"ہمم جب میں لنڈن پڑھتا تھا تب دو سال تک مجھے لو لیٹرز ملتے رہے۔ میں جہاں جاتا وہاں لیٹر ہوتا یہاں تک کہ میرے ہاسٹل روم میں بھی۔میں نے بہت کوشش کی پتا لگوانے کی مگر نتیجہ صفر پھر جب میرا یونیورسٹی میں آخری دن تھا تب ایک لڑکی نے اچانک ہی میرے آگے آکر مجھے پرپوز کر دیا میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا بعد میں پتا چلا وہ میری جونئیر تھی اور اس کا تعلق پاکستان سے ہی تھا۔"۔۔۔۔۔وہ ایک لمحے کے لیے رکا سب اسی کی طرف متوجہ تھے
"پھر؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔حرم جلدی سے بولی اس کی جلد بازی پر سب ہنس پڑے جبکہ وہ اپنی جگہ شرمندہ سی ہو گئی۔
"پھر کیا میں نے انکار کر دیا اور دوبارہ کبھی ہمارا آمنا سامنا نہیں ہوا۔"۔۔۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر بولا
"ہائے ظالم ایک لڑکی کا دل توڑ دیا۔"۔۔۔۔۔۔ہادی دکھ بھرے لہجے میں بولا
"دکھ تو تجھے ایسے ہو رہا ہے جیسے تیرا دل توڑا ہے۔"۔۔۔۔۔ روحان طنز کرتے ہوئے بولا
"اب میں ہر لڑکی کا دل تو نہیں رکھ سکتا نہ۔"۔۔۔۔۔ عالم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"او ہوو!!!! "۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات پر سب لڑکیاں بشمول ہادی یک زبان بولے تو ارحم نے ناک چڑھائی جبکہ اس کی یہ حرکت دیکھ کر عالم کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔
"چلو اٹھو سب بہت دیر ہو گئی ہے اور ہادی تم ادھر ہی رک جاؤ آج رات۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فارس نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا جو رات کے ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی۔
"نہیں میں تو  گھر ہی جاؤں گا امی اکیلی ہیں ویسے ہی اتنی دیر ہو گئی ہے اب تو ڈانٹ پکی ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔ہادی نے اچانک گھڑی میں ٹائم دیکھا تو پریشان ہوتے ہوئے اٹھا۔
باقی سب بھی اٹھے تو وہ اور عالم سب کو خدا حافظ کہتے ہوئے باہر کی طرف بڑھے۔ان سب نے بھی اپنے اپنے کمروں کی راہ لی۔
****************
جاری ہے۔
****************
dear readers sirf ep nahi parhni hoti usse vote bhi kr dia krein agr ap cmnt nhi kr skte sath mai follow bhi krein dabbay paon kisi chor ki tarhan ate hain or ep parh kr gaib.

Ashiqtam By ZashWhere stories live. Discover now