Episode 1

110 2 1
                                    

میری تنہائی میری جاں پہ بنی ہے سائیاں
پہلی قسط
تحریر ۔ اریج شاہ
°°°°°°
اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو سمبھالوں کیسے
تجھ کو دنیا کی نگاہوں سے چھپا لوں کیسے
اپنے ہاتھوں سے دیا دل کا بجھالوں کیسے
میری تنہائی میری جاں پہ بنی ہے سائیاں

کمرے کی خاموشی کو توڑتی ہوئی آواز ۔ اس نے اپنی آنکھوں سے نکلے ننھے سے اک قطرے کو اپنی انگلی کی پوروں پہ چنا اور بے دردی سے ہوا میں اچھال دیا ۔

اپنے درداپنی تکلیف کو اگنور کرتے ہوئے اس نے ایک اور سگریٹ سلگایا ۔

کمرہ گہرے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ وہ اپنے کمرے کی لائٹس ہمیشہ آف رکھتا تھا ۔
اسے روشنی سے وحشت ہوتی تھی ۔

"میری ہستی کو ہرا کر دیتی سزا ہوں مولا
دے مجھے میرا پتا کوئی کہاں ہوں مولا
ایک بجھے گھر کے چراغوں کا دھواں ہوں مولا
میری آواز میرے دل میں دبی ہے سائیاں ۔
" 
"میری آنکھوں میں جدائی کی نمی ہے سائیاں ۔
۔۔ میری تنہائی میری جاں پہ بنی ہے سائیاں ۔" 

اب مزید برداشت نہ ہو سکا تو اٹھ کر میوزک سسٹم بند کر دیا ۔ اور ایک بار پھر سے اسی کرسی پہ آ گیا ۔

اسے سگریٹ پے سگریٹ سلگاتے نہ جانے کتنی ہی دیر ہو چکی تھی ۔ جب کمرے میں ذرا سی روشنی ہوئی شاید دروازہ کھلنے کی وجہ سے ' کیونکہ اندھیرے میں تو صرف اس کی زندگی ڈوبی تھی ۔ اس نے خود اپنے آپ کواندھیرے کی نظر کیا تھا ۔

اسے لگا شاید اس کا ملازم ہوگا اسی لیے ویسے ہی بیٹھا رہا ۔
جب کچھ دیر میں اپنے بالوں میں کسی کے نرم ملائم ہاتھ کا لمس محسوس کیا ۔

اپنے سر پہ کھڑی اپنی دادو کو دیکھ کر اس نے فورا سگریٹ بجھایا ۔

اتنی جلد بازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے بیٹا میں دیکھ چکی ہوں دادو کے لہجے میں ہلکا سا طنز تھا جیسےمحسوس کر کے وہ شرمندہ سا ہو گیا

آپ یہاں مجھے بلا لیا ہوتا ۔ ۔ آئیں باہر چلتے ہیں
ارتضی نے دادو کو بیٹھنے کی جگہ دی لیکن کمرے میں دھواں ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر سے
شرمندگی نے آگھیرا ۔ اس لئے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتا انہیں کمرے سے باہر لے جانے لگا

تمہیں ذرا فکر نہیں رہی میری ۔ صبح اٹھتے ہو تیار ہوتے ہو۔ بیگ اٹھاتے ہو اور آفس چلے جاتے ہو ۔ رات
میرے سونے کے بعد آتے ہو ۔ ایسا کب تک چلے گا ۔

بس اب بہت ہوگیا تمہارا باپ بھی تمہاری روٹین
سے بہت تنگ ہے ۔
اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو شاید تنہائی میں مر جاتی میں وہ اپنے دل کا حال سنانے لگیں

کیسی باتیں کر رہی ہیں دادو اپنے عزیز رشتے کو خود سے دور ہونے کی بات کرتے دیکھ کر ارتضی حیدرتڑپ اٹھا تھا ۔

تو میں اور کیا کہوں ارتضی ۔ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ قسمت کا لکھا تھا اس میں میری تو کوئی غلطی نہیں یا تمہارے باپ کی ۔ تم ہمیں کیوں خود سے محروم کر رہے ہو ۔

Meri Tanhai Meri Jaan Pe Bani Hai Saiyyan |Areej Shah Where stories live. Discover now